جب سے بے نور ہوئی ہیں شمعیں (فیض احمد فیض)

 

بلیک آؤٹ

جب سے بے نور ہوئی ہیں شمعیں

خاک میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں نہ جانے کس جا

کھو گئیں ہیں مری دونوں آنکھیں

تم جو واقف ہو بتاؤ کوئی پہچان مری

اس طرح ہے کہ ہر اک رگ میں اتر آیا ہے

موج در موج کسی زہر کا قاتل دریا

تیرا ارمان، تری یاد لئے جان مری

جانے کس موج میں غلطاں ہے کہاں دل میرا

ایک پل ٹھہرو کہ اُس پار کسی دنیا سے

برق آئے مری جانب، یدِ بیضا لے کر

اور مری آنکھوں کے گم گشتہ گہر

جام ظلمت سے سیاہ مست

نئی آنکھوں کے شب تاب گہر لوٹادے

ایک پل ٹھہرو کہ دریا کا کہیں پاٹ لگے

اور نیا دل میرا

زہر میں دُھل کے فنا ہو کے کسی گھاٹ لگے

پھر پئے نظر نئے دیدہ و دل لے کے چلوں

حسن کی مدح کروں، شوق کا مضمون لکھوں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *