کس سے اظہارِ مدعا کیجے (جون ایلیا)

کس سے اظہارِ مدعا کیجے

آپ ملتے نہیں ہیں کیا کیجے

 

ہو نہ پایا یہ فیصلہ اب تک

آپ کیا کیجے تو کیا کیجے

 

آپ تھے جس کے چارہ گر وہ جواں

سخت بیمار ہے دعا کیجے

 

ایک ہی فن تو ہم نے سیکھا ہے

جس سے ملیے اسے خفا کیجے

 

ہے تقاضا مِری طبیعت کا

ہر کسی کو چراغ پا کیجے

 

آج ہم کیا گلا کریں اس سے

گلہ تنگیِ قبا کیجے

 

نُطقِ حیواں پر گراں ہے ابھی

گفتگو کم سے کم کیا کیجے

 

زندگی کا عجب معاملہ ہے

 ایک لمحے میں فیصلہ کیجے

 

مجھ کو عادت ہے رُوٹھ جانے کی

آپ مجھ کو منا لیا کیجے

 

ملتے رہیے اِسی تپاک کے ساتھ

بیوفائی کی انتہا کیجے

 

کوہکن کو ہے خودکشیِ خواہش

شاہ بانو سے التجا کیجے

 

مجھ سے کہتی ہیں وہ شراب آنکھیں

آپ یہ زہر مت پیا کیجے

 

رنگ ہر رنگ میں ہے داد طلب

خون تھوکوں تو واہ واہ کیجے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *