Monthly archives: June, 2019

جب بھی چوم لیتا ہوں ان حسین آنکھوں کو (کیفی اعظمی)

ایک لمحہ   جب بھی چوم لیتا ہوں ان حسین آنکھوں کو سو چراغ اندھیرے میں جھلملانے لگتے ہیں خشک خشک ہونٹوں میں جیسے دل کھنچ آتا ہے دل میں کتنے آئینے تھرتھرانے لگتے ہیں پھول کیا، شگوفے کیا، چاند کیا، ستارے کیا سب رقیب قدموں پر سر جھکانے لگتے ہیں ذہن جاگ اٹھتا ہے …

جب تصور مِرا چپکے سے تجھے چھو آئے (قتیل شفائی)

جب تصور مِرا چپکے سے تجھے چھو آئے اپنی ہر سانس سے مجھ کو تری خوشبو آئے   مشغلہ اب ہے مرا چاند کو تکتے رہنا رات بھر چین نہ مجھ کو کسی پہلو آئے   جب کبھی گردشِ دوراں نے ستایا مجھ کو مری جانب ترے پھیلے ہوئے بازو آئے   جب بھی سوچا …

جوبھی غنچہ ترے ہونٹوں پہ کھلا کرتا ہے (قتیل شفائی)

جوبھی غنچہ ترے ہونٹوں پہ کھلا کرتا ہے وہ مری تنگئی داماں کا گلہ کرتا ہے   دیر سے آج میرا سر ہے ترے زانو پر یہ وہ رتبہ ہے جو شاہوں کو ملا کرتا ہے   میں تو بیٹھا ہوں دبائے ہوئے طوفانوں کو تو مرے دل کے دھڑکنے کا گلہ کرتا ہے   …

جب نیند بھری ہو آنکھوں میں )فہمیدہ ریاض)

جب نیند بھری ہو آنکھوں میں   جب نیند بھری ہو آنکھوں میں ، جب رات گئے بیلا مہکے اور چار طرف ہو سناٹا ، چپ چاپ گزرتے ہوں لمحے ایسے میں ہوا کا جھونکا بھی پتوں میں جو آہٹ کرتا ہے مجھ کو تو گماں یہ ہوتا ہے ، جیسے وہ ہنسا آہستہ سے …

ٹپ ٹپ بوندیں ، بے کل خواہش (فہمیدہ ریاض)

خوشبو   ٹپ ٹپ بوندیں ، بے کل خواہش ساون رُت چھائی ہے ہر سُو آم کے پیڑوں سے آتی ہے کوئل کی آوارہ کُو کُو   غم ، دھرتی کی سوندھی خوشبو سوئی یادوں کو سہلائے بیتی برساتوں کی گپھا میں کھوئے کھوئے چھنکے گھنگھرو   لہر لہر بے چین ہے ساگر ساحل پیاسا ذرہ …

تِرے آنے کا دھوکا سا رہا ہے (ناصر کاظمی)

تِرے آنے کا دھوکا سا رہا ہے دیا سا رات بھر جلتا رہا ہے عجب ہے رات سے آنکھوں کا عالم یہ دریا رات بھر چڑھتا رہا ہے سُنا ہے رات بھر برسا ہے بادل! مگر وہ شہر جو پیاسا رہا ہے وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا جو پچھلی رات سے یاد آرہا …

پھر ساون رُت کی پَون چلی تم یاد آئے ناصر کاظمی)

پھر ساون رُت کی پَون چلی تم یاد آئے پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے   پھر کونجیں بولیں گھاس کے ہرے سمندر میں رُت ائی پیلے پھولوں کی تم یاد آئے   پھر کاگا بولا گھر کے سونے آنگن میں پھر امرت رس کی بوند پڑی تم یاد آئے   دن بھر …

جو تماشا نظر آیا اسے دیکھا سمجھا (بیخود دہلوی)

جو تماشا نظر آیا اسے دیکھا سمجھا جب سمجھ آگئی دنیا کو تماشا سمجھا   میں گنہ گار سہی ، رنج تو اس بات کا ہے تو نے زاہد مجھے بندہ نہ خدا کا سمجھا   میں تو اے شیخِ زماں خوب سمجھتا ہوں تجھے تو مِرے حسنِ ارادت کو  بتا کیا سمجھا   میں …

دردِ دل میں کمی نہ ہو جائے (بیخود دہلوی)

دردِ دل میں کمی نہ ہو جائے دوستی دشمنی نہ ہو جائے   بیٹھتا ہے ہمیشہ رندوں میں کہیں زاہد ولی نہ ہو جائے   اپنی خوئے وفا سے ڈرتا ہوں عاشقی بندگی نہ ہو جائے   تم مِری دوستی کا دم نہ ھرو آسماں مدعی نہ ہو جائے

بات کرنے میں گزرتی ہے ملاقات کی رات (بیخود دہلوی)

بات کرنے میں گزرتی ہے ملاقات کی رات بات ہی کیا ہے جو رہ جاؤ یہیں رات کی رات   اس شبِ تار میں جانے کی اجازت کیا خوب اور پھر اس پہ یہ طرہ ہے کہ برسات کی رات   حور کے شوق میں تڑپا کیے ہم تو واعظ کہیے کس طرح کٹی قبلئہ …