Category «قتیل شفائی»

اے دوست! تری آنکھ جو نَم ہے تو مجھے کیا (قتیل شفائی)

اے دوست! تری آنکھ جو نَم ہے تو مجھے کیا میں خوب ہنسوں گا، تجھے غم ہے تو مجھے کیا کیا میں نے کہا تھا کہ زمانے سے بھلا کر اب تو بھی سزاوارِ ستم ہے تو مجھے کیا ہاں لے لے قسم گر مجھے قطرہ بھی ملا ہو تو شاکی اربابِ کرم ہے تو …

تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ایسے تو حالات نہیں (قتیل شفائی)

تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ایسے تو حالات نہیں ایک ذرا سا دل ٹوٹا ہے اور تو کوئی بات نہیں کس کو خبر تھی سانولے بادل بن برسے اڑ جاتے ہیں ساون آیا لیکن اپنی قسمت میں برسات نہیں  ٹوٹ گیا جب دل تو پھر یہ سانس کا نغمہ کیا معنی  گونج رہی ہے …

مل کر جدا ہوئے تو نہ سویا کریں گے ہم (قتیل شفائی)

مل کر جدا ہوئے تو نہ سویا کریں گے ہم اک دوسرے کی یاد میں رویا کریں گے ہم آنسو چھلک چھلک کے ستائیں گے رات بھر موتی پلک پلک میں پرویا کریں گے ہم جب دوریوں کی آگ دل کو جلائے گی جسموں کو چاندنی میں بھگویا کریں گے ہم بن کر ہر ایک …

وہ شخص کہ میں جس سےمحبت نہیں کرتا (قتیل شفائی)

وہ شخص کہ میں جس سےمحبت نہیں کرتا ہنستا ہے مجھے دیکھ کے نفرت نہیں کرتا کس قوم کے دل میں نہیں جذباتِ براہیم کس ملک پہ نمرود حکومت نہیں کرتا بھولا نہیں میں آج بھی آدابِ جوانی میں آج بھی اوروں کو نصیحت نہیں کرتا دیتے ہیں اجالے مِرے سجدوں کی گواہی میں چھپ …

وہ دل ہی کیا ترے ملنے کی جو دعا نہ کرے (قتیل شفائی)

وہ دل ہی کیا ترے ملنے کی جو دعا نہ کرے میں تجھ کو بھول کے زندہ رہوں، خدا نہ کرے رہے گا ساتھ تِرا پیار زندگی بن کر یہ اور بات ہے مِری زندگی وفا نہ کرے یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں خدا کسی کو کسی سے مگر جدا نہ کرے …

اپنے ہونٹوں پر سجانا چاہتا ہوں (قتیل شفائی)

اپنے ہونٹوں پر سجانا چاہتا ہوں آ تجھے میں گنگنانا چاہتا ہوں کوئی آنسو تیرے دامن پر گرا کر بوند کو موتی بنانا چاہتا ہوں تھک گیا میں کرتے کرتے یاد تجھ کو اب تجھے میں یاد آنا چاہتا ہوں چھا رہا ہے ساری بستی میں اندھیرا روشنی کو گھر بلانا چاہتا ہوں آخری ہچکی …

لاکھ پردوں میں رہوں بھید مرے کھولتی ہے (قتیل شفائی)

شاعری سچ بولتی ہے لاکھ پردوں میں رہوں بھید مرے کھولتی ہے شاعری سچ بولتی ہے میں نے دیکھا ہے کہ جب میری زباں ڈولتی ہے شاعری سچ بولتی ہے تیرا اصرار کہ چاہت مری بے تاب نہ ہو واقف اس غم سے مرا حلقئہ احباب نہ ہو تو مجھے ضبط کے صحراؤں میں کیوں …

گرمئی حسرتِ ناکام سے جل جاتے ہیں (قتیل شفائی)

گرمئی حسرتِ ناکام سے جل جاتے ہیں ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے ہم اُسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں بچ نکلتے ہیں اگر آتشِ سیال سے ہم شعلئہ عارضِ گلفام سے جل جاتے ہیں خودنمائی تو نہیں شیوۃ اربابِ وفا …

پہلے تو اپنے دل کی رضا جان جائیے (قتیل شفائی)

پہلے تو اپنے دل کی رضا جان جائیے پھر جو نگاہِ یار کہے مان جائیے شاید حضور سے کوئی نسبت ہمیں بھی ہو آنکھوں میں جھانک کر ہمیں پہچان جائیے اک دھوپ سی جمی ہے نگاہوں کے آس پاس یہ آپ ہیں تو آپ پہ قربان جائیے کچھ کہہ رہی ہیں آپ کے سینے کی …

پریشاں رات ساری ہے ستارو تم تو سو جاؤ (قتیل شفائی)

پریشاں رات ساری ہے ستارو تم تو سو جاؤ سکوتِ مرگ طاری ہے ستارو  تم تو سو جاؤ ہنسو اور ہنستے ہنستے ڈوب جاؤ خلاؤں میں ہمیں پہ رات بھاری ہے ستارو تم تو سو جاؤ ہمیں تو آج کی شب پو پھٹے تک جاگنا ہو گا یہی قسمت ہماری ہے، ستارو تم تو سو …