چراغِ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے ( ساغر صدیقی)

چراغِ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے

ذرا نقاب اتھاؤ! بڑا اندھیرا ہے

 

ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے

ابھی فریب نہ کھاؤ! بڑا اندھیرا ہے

 

وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں

انہیں کہیں سے بلاؤ! بڑا ندھیرا ہے

 

مجھے تمہاری نگاہوں پہ اعتماد نہیں

مرے قریب نہ آؤ!  بڑا اندھیرا ہے

 

فرازِ عرش سے کوئی ٹوٹا ہوا تارہ

کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ! بڑا اندھیرا ہے

 

جسے زبانِ خرد میں شراب کہتے ہیں

وہ روشنی سی پلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے

 

بنامِ زہرہ  جبینانِ خطئہ فردوس

کسی کرن کو جگاؤ! بڑا اندھیرا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *