خیر یوں ہی سہی تسکیں ہو کہیں تھوڑی سی (نظام رامپوری)

خیر یوں ہی سہی تسکیں ہو کہیں تھوڑی سی

“ہاں” تو کہتے ہو مگر ساتھ “نہیں” تھوڑی سی

حالِ دل سن کے مِرا بر سرِ رحمت تو ہیں کچھ

ابھی باقی ہے مگر چینِ جبیں تھوڑی سی

ہوئی جاتی ہے سحر ایسا بھی گھبرانا کیا

رات اگر ہے بھی تو اے ماہ جبیں! تھوڑی سی

جام مے دیکھ کے لبریز ، کس انداز کے ساتھ

اس کا کہنا کہ نہیں ، اِتنی نہیں ، تھوڑی سی

اب تو سب کا تِرے کوچے ہی میں مسکن ٹھہرا

یہی آباد ہے دنیا میں زمیں تھوڑی سی

اٹھے جاتے ہیں ہمیں ، آپ نہ بیٹھیں خاموش

آپ کی بات سمجھتے ہیں ہمیں تھوڑی سی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *