کیا کیا نظر کو شوقِ ہوس دیکھنے میں تھا (مصطفیٰ زیدی)

کیا کیا نظر کو شوقِ ہوس دیکھنے میں تھا

دیکھا تو ہر جمال اِسی آئینے میں تھا

قُلزم نے بڑھ کے چوم لیے پھول سے قدم

دریائے رنگ و نور ابھی راستے میں تھا

 اِک رشتئہ وفا تھا سو کس  ناشناس سے

اِک درد حرزِ جاں تھا سو کس کے صلے میں تھا

صہبائے تند و تیز کی حِدت کو کیا خبر

شیشے سے پوچھئے جو مزہ ٹوٹنے میں تھا

کیا کیا رہے ہیں حرف و حکایت کے سلسلے

وہ کم سخن نہیں تھا مگر دیکھنے تھا

تائب تھے اِحتساب سے جب سارے بادہ کش

مجُھ کو یہ افتخار کہ میں مَے کدے میں تھا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *