جنسِ محبت کیوں لائی ہو؟ (منصورہ احمد)

نظم یکے از نوادر

جنسِ محبت کیوں لائی ہو؟

منڈی میں اس کا مندہ ہے

نفرت ہی سب کا دھندا ہے

بڑے بڑے بیوپاری آ کر

اونچے اونچے دام لگا کر

جتنی نفرت لے جاتے ہیں

اُتنی نفرت دے جاتے ہیں

منڈی کا رجحان تو دیکھو

کتنی بھولی ہو، کہتی ہو

اس مصروف بھری دنیا میں

شاید کوئی دستِ طلب ہو

لیکن اس بازارِ ہوس میں

جذبئہ انساں بے وقعت ہے

اگلے کئی ہزار برس تک

جنسِ محبت بے قیمت ہے

ہاں اک اور جگہ ایسی ہے

بہت پرانی چیز جہاں پر

جیسی بھی ہو، سج جاتی ہے

کسی عجائب گھر میں جچے گی

جنسِ محبت سی نادر شے

مستقبل کی نسلیں اس کو

دیکھ دیکھ کے حیراں ہوں گی

سوچیں گی، ماضی کے انساں

کتنے خسارے کے عادی تھے

کتنے سادہ لوح تھے جن کے

!سارے جذبے بنیادی تھے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *