فن کار خود نہ تھی، مرے فن کی شریک تھی (مصطفیٰ زیدی)

شہناز

فن کار خود نہ تھی، مرے فن کی شریک تھی

وہ روح کے سفر میں بدن کی شریک تھی

اترا تھا جس پہ بابِ حیا کا ورق ورق

بستر کے ایک ایک شکن کی شریک تھی

میں ایک اعتبار سے آتش پرست تھا

وہ سارے زاویوں سے چمن کی شریک تھی

وہ نازشِ ستارہ و طنازِ مہتاب

گردش کے وقت میرے گہن کی شریک تھی

وہ ہم جلیسِ سانحئہ زحمتِ نشاط

آسائشِ صلیب و رَسن کی شریک تھی

ناقابلِ بیان اندھیرے کے باوجود

میری دعائے صبحِ وطن کی شریک تھی

دنیا میں ایک سال کی مدت کا قرب تھا

دِل میں کئی ہزار قرن کی شریک تھی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *