کوئی آرزو نہیں ہے کوئی مدعا نہیں ہے (شکیل بدایونی)

کوئی آرزو نہیں ہے  کوئی مدعا نہیں ہے

تِرا غم رہے سلامت مِرے دل میں کیا نہیں ہے

کہاں جامِ غم کی تلخی کہاں زندگی کا درماں

مجھے وہ دوا ملی ہے جو مِری دوا نہیں ہے

تمھیں کہہ دیا ستمگر یہ قصور تھا زباں کا

مجھے تم معاف کر دو مِرا دل برا نہیں ہے

یہ اداس اداس چہرے یہ حسیں حسیں تبسم

تِری انجمن میں شاید کوئی آئنہ نہیں ہے

مِری آنکھ نے تجھے بھی بہ خدا شکیل پایا

میں سمجھ رہا تھا مجھ سا کوئی دوسرا نہیں ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *