چشمِ حسیں میں ہے نہ رخِ فتنہ گر میں ہے (بہزاد لکھنوی)
چشمِ حسیں میں ہے نہ رخِ فتنہ گر میں ہے دنیا کا ہر فریب فریبِ نظر میں ہے اب کیا خبر دل میں ہے کیا کیا جگر میں ہے اب تو تری نظر کا تماشا نظر میں ہے ایمان رکھ کے کیا کروں فرسودہ چیز ہے مستی مجھے قبول کہ تیری نظر میں ہے حاضر …