Monthly archives: September, 2020

درخت۔۔۔۔۔ میرے دوست (ثروت حسین)

درخت۔۔۔۔۔ میرے دوست درخت! میرے دوست تم مل جاتے ہو مجھے کسی نہ کسی موڑ پر اور آسان کر دیتے ہو میرا سفر تمہارے پیروں کی انگلیاں جمی رہیں پاتال کے بھیدوں پر قائم رہے میرے دوست تمہارت تنے کی متانت اور قوت۔۔۔۔ دھوپ اور بارش تمہیں اپنے تحفوں سے نوازتی رہے تم بہت پروقار …

پورے چاند کی سج دھج ہے شہزادوں والی (ثروت حسین)

پورے چاند کی سج دھج ہے شہزادوں والی کیسی عجیب گھڑی ہے نیک ارادوں والی نئی نئی سی آگ ہے یا پھر کون ہے وہ پیلے پھولوں گہرے سرخ لبادوں والی بھری رہیں یہ گلیاں پھول پرندوں سے سجی رہے تاروں سے طاق مرادوں والی آنکھیں ہیں اور دھول بھرا سناٹا ہے گزر گئی ہے …

میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا (منیر نیازی)

میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا میں بہت کمزور تھا اس ملک میں ہجرت کے بعد پر مجھے اس ملک میں کمزور تر اس نے کیا راہبر میرا بنا گمراہ کرنے کے لیے مجھ کو سیدھے راستے سے دربدر اس نے کیا …

خوبصورت زندگی کو ہم نے کیسے گزارا (منیر نیازی)

خوبصورت زندگی کو ہم نے کیسے گزارا آج کا دن کیسے گزرے گا کل گزرے گا کیسے کل جو پریشانی میں بیتا وہ بھولے گا کیسے کتنے دن ہم اور جیئیں گے کام ہیں کتنے باقی کتنے دکھ ہم کاٹ چکے ہیں اور ہیں کتنے باقی خاص طرح کی سوچ تھی جس میں سیدھی بات …

کچھ باتیں ان کہی رہنے دو (منیر نیازی)

کچھ باتیں ان کہی رہنے دو کچھ باتیں ان کہی رہنے دو کچھ باتیں ان سنی رہنے دو سب باتیں دل کی کہہ دیں اگر پھر باقی کیا رہ جائے گا سب باتیں اس کی سن لیں اگر پھر باقی کیا رہ جائے گا اک اوجھل بے کلی رہنے دو اک رنگین ان بنی دنیا …

جب بھی گھر کی چھپ پر جائیں ناز دکھانے آ جاتے ہیں (منیر نیازی)

جب بھی گھر کی چھپ پر جائیں ناز دکھانے آ جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو جلانے آ جاتے ہیں دن بھر جو سورج کے ڈر سے گلیوں میں چھپ رہتے ہیں شام آتے ہی آنکھوں میں وہ رنگ پرانے آ جاتے ہیں جن لوگوں نے ان کی طلب میں صحراؤں کی دھول …

اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو (منیر نیازی)

اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو اشکِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو پھرتے ہیں مثلِ موجِ ہوا شہر شہر میں آوارگی کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو شامِ الم ڈھلی تو …

چاروں سمت اندھیرا گھپ ہے اور گھٹا گھنگھور (منیر نیازی)

صدا بصحر ا چاروں سمت اندھیرا گھپ ہے اور گھٹا گھنگھور وہ کہتی ہے کون۔۔۔۔۔۔؟” میں کہتا ہوں “میں۔۔۔۔’ کھولو یہ بھاری دروازہ مجھ کو اندر آنے دو۔۔۔۔۔۔” اس کے بعد ایک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور

کتابِ عمر کا اِک اور باب ختم ہوا (منیر نیازی)

کتابِ عمر کا اِک اور باب ختم ہوا شباب ختم ہوا اک عذاب ختم ہوا ہوئی نجات سفر میں فریب صحرا سے سراب ختم ہوا اضطراب ختم ہوا برس کے کھل گیا بادل ہوائے شب کی طرح فلک پہ برق کا وہ پیچ و تاب ختم ہوا جواب دہ نہ رہا میں کسی کے آگے …

آج اک افسروں کے حلقے میں (مصطفیٰ زیدی)

بزدل آج اک افسروں کے حلقے میں ایک معتوب ماتحت آیا اپنے افکار کا حساب لئے اپنے ایمان کی کتاب لئے ماتحت کی ضعیف آنکھوں میں ایک بجھتی ہوئی ذہانت تھی افسروں کے لطیف لہجے میں قہر تھا، زہر تھا، خطابت تھی یہ ہر اک دن کا واقعہ، اس دن صرف اس اہمیت کا حامل …