مرے غم کے لیے اس بزم میں فرصت کہاں پیدا (میکش اکبر آبادی)

مرے غم کے لیے اس بزم میں فرصت کہاں پیدا

یہاں تو ہو رہی ہے داستان سے داستاں پیدا

وہی ہے ایک مستی سی وہاں نظروں میں یاں دل میں

وہی ہے ایک شورش سی وہاں پنہاں یاں پیدا

تو اپنا کارواں لے چل نہ کر غم میرے ذروں کا

انہیں ذروں سے ہو جائے گا پھر سے کارواں پیدا

ذرا تم نے نظر پھیری کہ جیسے کچھ نہ تھا دل میں

ذرا تم مسکرائے ہو گیا پھر اک جہاں پیدا

ہماری سخت جانی سے ہوا شل ہاتھ  قاتل کا

سرِ مقتل ہی ہم نے کر لیا دارالاماں پیدا

 توقع ہے کہ بدلے گا زمانہ لیکن اے میکش

زمانہ ہے یہی تو ہو چکے انساں یہاں پیدا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *