یہ رنگ و نور بھلا کب کسی کے ہاتھ آئے (میکش اکبر آبادی)

یہ رنگ و نور بھلا کب کسی کے ہاتھ آئے

کدھر چلے ہیں اندھیرے یہ ہاتھ پھیلائے

خدا کرے کوئی شمعیں لئے چلا آئے

دھڑک رہے ہیں مرے دل میں شام کے سائے

کہاں وہ اور کہاں میری پر خطر راہیں

مگر پھر بھی وہ مرے ساتھ دور تک آئے

میں اپنے عہد میں شمعِ مزار ہو کے رہا

کبھی نہ دیکھ سکے مجھ کو میرے ہمسائے

چلے چلو کہ بتا دے گی راہ خود رستے

کہاں ہے وقت کہ کوئی کسی کو سمجھائے

حرم کی آبرو ہم نے بہت رکھی پھر بھی

کئی چراغ صنم خانے میں جلا آئے

میں اپنے دل کو تو تسکین دے بھی لوں میکش

وہ مضطرب ہے بہت کون اس کو سمجھائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *