Monthly archives: October, 2020

قرار دل کو سدا جس کے نام سے آیا (جمال احسانی)

قرار دل کو سدا جس کے نام سے آیا وہ آیا بھی تو کسی اور کام سے آیا کسی نے پوچھا نہیں لوٹتے ہوئے مجھ سے میں آج کیسے بھلا گھر میں شام سے آیا ہم ایسے بے ہنروں میں ہے جو سلیقئہ زیست ترے دیار میں پل بھر قیام سے آیا جو آسماں کی …

کیا کیا دلوں کا خوف چھپانا پڑا ہمیں (جلیل عالی)

کیا کیا دلوں کا خوف چھپانا پڑا ہمیں خود ڈر گئے تو سب کو ڈرانا پڑا ہمیں اک دوسرے سے بچ کے نکلنا محال تھا اک دوسرے کو روند کے جانا پڑا ہمیں اپنے دیے کو چاند بتانے کے واسطے بستی کا ہر چراغ بجھانا پڑا ہمیں وحشی ہوا نے ایسے برہنہ کئے بدن اپنا …

تمہارا کیا ہے تمہیں آساں بہت رستے بدلنا ہے (جلیل عالی)

تمہارا کیا ہے تمہیں آساں بہت رستے بدلنا ہے ہمیں ہر ایک موسم قافلے کے ساتھ چلنا ہے بس اک ڈھلوان ہے جس پر لڑھکتے جا رہے ہیں ہم ہمیں جانے نشیبوں میں کہاں جا کر سنبھلنا ہے ہم اس ڈر سے کوئی سورج چمکنے ہی نہیں دیتے کہ جانے شب کے اندھیاروں سے کیا …

اپنے ہونے سے بھی انکار کئے جاتے ہیں(جلیل عالی)

اپنے ہونے سے بھی انکار کئے جاتے ہیں ہم کہ رستہ ترا ہموار کئے جاتے ہیں روز اب شہر میں سجتے ہیں تجارت میلے لوگ صحنوں کو بھی بازار کئے جاتے ہیں ڈالتے ہیں وہ جو کشکول میں سانسیں گن کر کل کے سپنے بھی گرفتار کئے جاتے ہیں کس کو معلوم یہاں اصل کہانی …

راستہ سوچتے رہنے سے کب بنتا ہے (جلیل عالی)

راستہ سوچتے رہنے سے کب بنتا ہے سر میں سودا ہو تو دیوار میں در بنتا ہے آگ ہی آگ ہو سینے میں تو کیا پھول جھڑیں شعلہ ہوتی ہے زباں لفظ شرر بنتا ہے زندگی سوچ عذابوں میں گزاری ہے میاں ایک دن میں کہاں انداز نظر بنتا ہے مدعی تخت کے آتے ہیں …

تم نہ مانو مگر حقیقت ہے (قابل اجمیری)

تم نہ مانو مگر حقیقت ہے عشق انسان کی ضرورت ہے جی رہا ہوں اس اعتماد کے ساتھ زندگی کو مری ضرورت ہے حسن ہی حسن جلوے ہی جلوے صرف احساس کی ضرورت ہے اس کے وعدے پہ ناز تھے کیا کیا اب در و بام سے ندامت ہے اس کی محفل میں بیٹھ کر …

ہوائیں تیز تھیں یہ تو فقط بہانے تھے (آشفتہ چنگیزی)

ہوائیں تیز تھیں یہ تو فقط بہانے تھے سفینے یوں بھی کنارے پہ کب لگانے تھے خیال اتا ہے ہے رہ رہ کے لوٹ جانے کا سفر سے پہلے ہمیں اپنے گھر جلانے تھے گمان تھا کہ سمجھ لیں گے موسموں کا مزاج کھلی جو آنکھ تو زد پہ سبھی ٹھکانے تھے ہمیں بھی آج …