Monthly archives: October, 2020

بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے (عرفان صدیقی)

بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے اسے گلے سے لگائے زمانہ ہو گیا ہے چمک رہا ہے افق تک غبار تیرہ شبی کوئی چراغ سفر پر روانہ ہو گیا ہے ہمیں تو خیر بکھرنا ہی تھا کبھی نہ کبھی ہوائے تازہ کا جھونکا بہانہ ہو گیا ہے غرض کہ پوچھتے کیا ہو مال …

بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں (عرفان صدیقی)

بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں کہ چھو رہا ہوں تجھے اور پگھل رہا ہوں میں تجھی پہ ختم ہے جاناں مرے زوال کی رات تو اب طلوع بھی ہو جا کہ ڈھل رہا ہوں میں بلا رہا ہے مرا جامہ زیب ملنے کو تو آج پیرہنِ جاں بدل رہا ہوں میں …

اٹھو یہ منطر شب تاب دیکھنے کے لیے (عرفان صدیقی)

اٹھو یہ منطر شب تاب دیکھنے کے لیے کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے وہ مرحلہ ہے کہ اب سیل خوں پہ راضی ہیں ہم اس زمیں کو شاداب دیکھنے کے لیے جو ہو سکے تو ذرا شہ …

چپ کے عالم میں وہ تصویر سی صورت اس کی (شہزاد احمد)

چپ کے عالم میں وہ تصویر سی صورت اس کی بولتی ہے تو بدل جاتی ہے رنگت اس کی سیڑھیاں چڑھتے اچانک وہ ملی تھی مجھ کو اس کی آواز میں موجود تھی حیرت اس کی ہاتھ چھو لوں تو لرز جاتی ہے پتے کی طرح وہی ناکردہ گناہوں پہ ندامت اس کی کسی ٹھہری …

کبھی کتابوں میں پھول رکھنا، کبھی درختوں پہ نام لکھنا (حسن رضوی)

کبھی کتابوں میں پھول رکھنا، کبھی درختوں پہ نام لکھنا ہمیں بھی ہے یاد آج تک وہ نظر سے حرف سلام لکھنا وہ چاند چہرے وہ بہکی باتیں سلگتے دن تھے مہکتی راتیں وہ چھوٹے چھوٹے سے کاغذوں پر  محبتوں کے پیام لکھنا گلاب چہروں سے دل لگانا وہ چپکے چپکے نظر ملانا وہ آرزوؤں …

نقش پانی پہ بنایا کیوں تھا (محسن زیدی)

نقش پانی پہ بنایا کیوں تھا جب بنایا تو مٹایا کیوں تھا گئے وقتوں کا ہے اب رونا کیوں آئے وقتوں کو گنوایا کیوں تھا بیٹھ جانا تھا اگر مثل غبار سر پہ طوفان اٹھایا کیوں تھا میری منزل نہ کہیں تھی تو مجھے دشت در دشت پھرایا کیوں تھا وہ نہ ہمدم تھا نہ …

عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے (مخدوم محی الدین )

عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے دل کے انگارے کو دہکاؤ کہ کچھ رات کتے ہجر میں ملنے شبِ ماہ کے غم آئے ہیں چارہ سازوں کو بھی بلواؤ کہ کچھ رات کٹے کوئی جلتا ہی نہیں، کوئی پگھلتا ہی نہیں موم بن جاؤ، پگھل جاؤ کہ کچھ رات کٹے چشم و …

ستاروں سے الجھتا جا رہا ہوں (فراق گورکھپوری)

ستاروں سے الجھتا جا رہا ہوں شب فرقت بہت گھبرا رہا ہوں ترے غم کو بھی کچھ بہلا رہا ہوں جہاں کو بھی سمجھتا جا رہا ہوں یقیں یہ ہے حقیقت کھل رہی ہے گماں یہ ہے کہ دھوکے کھا رہا ہوں اگر ممکن ہو لے لے اپنی آہٹ خبر دو حسن کو میں آ …

لوگ کہتے ہیں کہ تو اب بھی خفا ہے مجھ سے (جاں نثار اختر)

لوگ کہتے ہیں کہ تو اب بھی خفا ہے مجھ سے تیری آنکھوں نے تو کچھ اور کہا ہے مجھ سے ہائے اس وقت کو کوسوں کہ دعا دوں یارو جس نے ہر درد مرا چھین لیا ہے مجھ سے دل کا یہ حال کہ دھڑکے ہی چلے جاتا ہے ایسا لگتا ہے کوئی جرم …

بیچ جنگل میں پہنچ کے کتنی حیرانی ہوئی (جمال احسانی)

بیچ جنگل میں پہنچ کے کتنی حیرانی ہوئی اک صدا آئی اچانک جانی پہچانی ہوئی پھر وہی چھت پر اکیلے ہم وہی ٹھنڈی ہوا کتنے اندیشے بڑھے جب رات طوفانی ہوئی ہو گئی دور ان گنت ویراں گزرگاہوں کی کوفت ایک بستی سے گزرنے میں وہ آسانی ہوئی اس نے بارش میں بھی کھڑکی کھول …