بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے (عرفان صدیقی)
بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے اسے گلے سے لگائے زمانہ ہو گیا ہے چمک رہا ہے افق تک غبار تیرہ شبی کوئی چراغ سفر پر روانہ ہو گیا ہے ہمیں تو خیر بکھرنا ہی تھا کبھی نہ کبھی ہوائے تازہ کا جھونکا بہانہ ہو گیا ہے غرض کہ پوچھتے کیا ہو مال …