دنیا کی لمبی راہوں پر ہم یوں تو چلتے جاتے ہیں (فہمیدہ ریاض)

کچھ لوگ

دنیا کی لمبی راہوں پر ہم یوں تو چلتے جاتے ہیں

کچھ ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جویاد ہمیشہ آتے ہیں

وہ راہ بدلتے ہیں اپنی اور مُڑ کر ہاتھ ہلاتے ہیں

لیکن وہ دلوں کو یادوں کی خوشبو بن کر مہکاتے ہیں

ایسے ہی سفر کرتے کرتے ، اِک شخص ملا ہم کو بھی کہیں

دنیا میں اچھے لوگ بہت ، لیکن اُس کی سی بات نہیں

وہ دھیمے لہجے والا تھا اور وہ دھیرے سے ہنستا تھا

جتنے بھی لوگ ملے ہم کو ، سچ جانو سب سے اچھا تھا

تھی لاگ نہ اس کے بولوں میں ، کی بات نہ کوئی لگاوٹ کی

اُس کے فقرے ٹوٹے ٹوٹے ، اس کی آنکھیں کھوئی کھوئی

کہہ کر ہی نہ دے جو ہم چاہیں ، سوچا ہی کرے بیٹھا بیٹھا

پر دیکھے ایسی نرمی سے ، اِک بار تو ہو جائے دھوکا

گو ساتھ ہمارا خوب رہا ، اُس کو نہ ہوئی پہچان بہت

گر بُوجھ لے دل کی بات کبھی ، ہوجاتا تھا حیران بہت

اور ہم اُس کی حیرانی پر شرمندہ ہو کر رہ جاتے

کچھ اور ہمارا مطلب تھا ، پھر دیر تلک سمجھاتے

اب چہرہ اُس کا اجلا ہو ، یا آنکھیں اُس کی ہوں گہری

یا اُس کے پیارے ہونٹوں کی ہر بات لگے ٹھہری ٹھہری

کچھ لوگ جو اچھے ہوتے ہیں اور راہوں میں مل جاتے ہیں

ہیں اُن کو اپنے کام بہت ، کب اپنا وقت گنواتے ہیں

کب پیاسے پیاسے رہتے ہیں ،  جی کو روگ لگاتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *