Category «ساحر لدھیانوی»

کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا ایا (ساحر لدھیانوی)

کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا ایا بات نکلی تو ہر اک بات  پہ رونا آیا ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کو کیا ہوا اج کس بات پہ رونا آیا کس لیے جیتے ہیں ہم کس کے لیے جیتے ہیں بارہا ایسے سوالات پہ رونا آیا کون روتا ہے …

کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا ایا (ساحر لدھیانوی)

کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا ایا بات نکلی تو ہر اک بات  پہ رونا آیا ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کو کیا ہوا اج کس بات پہ رونا آیا کس لیے جیتے ہیں ہم کس کے لیے جیتے ہیں بارہا ایسے سوالات پہ رونا آیا کون روتا ہے …

چہرے پہ خوشی چھاجاتی ہے آنکھوں میں سرور آ جاتا ہے (ساحر لدھیانوی)

چہرے پہ خوشی چھاجاتی ہے آنکھوں میں سرور آ جاتا ہے جب تم مجھے اپنا کہتے ہو اپنے پہ غرور آ جاتا ہے تم حسن کی خود اک دنیا ہوشاید یہ تمہیں معلوم نہیں محفل میں تمہارے آنے سے ہر چیز پہ نور آ جاتا ہے ہم پاس سے تم کو کیا دیکھیں تم جب …

تیرے ہونٹوں پہ تبسم کی وہ ہلکی سی لکیر (ساحر لدھیانوی)

ہراس تیرے ہونٹوں پہ تبسم کی وہ ہلکی سی لکیر میرے تخیل میں رہ رہ کے جھلک اٹھتی ہے یوں اچانک تیرے عارض کا خیال آتا ہے جیسے ظلمت میں کوئی شمع بھڑک اٹھتی ہے تیرے پیراہنِ رنگیں کی جنوں خیز مہک خواب بن بن کے میرے ذہن میں لہراتر آتی ہے رات کی سرد …

میں نے ہر چند غمِ عشق کو کھونا چاہا (ساحر لدھیانوی)

ناکامی میں نے ہر چند غمِ عشق کو کھونا چاہا غمِ الفت غمِ دنیا میں سمونا چاہا وہی افسانے مری سمت رواں ہے اب تک وہی شعلے مرے سینے میں نہاں ہیں اب تک وہی بے سود خلش ہے مرے سینے میں ہنوز وہی بیکار تمنائیں جواں ہیں اب تک وہی گیسو مری راتوں پہ …

جہاں جہاں تری نظروں کی اوس ٹپکی ہے (ساحر لدھیانوی)

  جہاں جہاں تری نظروں کی اوس ٹپکی ہے وہاں وہاں سے ابھی تک غبار اٹھتا ہے جہاں جہاں ترے جلووں کے پھول بکھرے تھے وہاں وہاں  دلِ  وحشی  پکار اٹھتا ہے       نہ منہ چھپا کے جئے ہم ، نہ سر جھکا کے جئے ستم گروں کی نظر سے  نظر ملا کے جئے …

بہت گھٹن ہے کوئی صورتِ بیاں نکلے (ساحر لدھیانوی)

  بہت گھٹن ہے کوئی صورتِ بیاں نکلے اگر صدا نہ اُٹھے کم سے کم فغاں نکلے   فقیرِ شہر کے تن پر لباس باقی ہے امیرِ شہر  کے ارماں ابھی کہاں نکلے   حقیقتیں ہیں سلامت تو خواب بہتیرے ملال کیا ہے کہ کچھ خواب رائیگاں نکلے   اِدھر بھی خاک اُڑی اُدھر بھی …

محبت ترک کی میں نے گریباں سی لیا میں نے (ساحر لدھیانوی)

  محبت ترک کی میں نے گریباں سی لیا میں نے زمانے اب تو خوش زہر یہ بھی پی لیا میں نے   ابھی زندہ ہوں لیکن سوچتا رہتا ہوں یہ دل میں کہ اب تک کس تمنا کے سہارے جی لیا میں نے   انہیں اپنا نہیں سکتا مگر اتنا بھی کیا کم ہے …

تاج تیرے لیے مظہرِ اُلفت ہی سہی (ساحر لدھیانوی)

تاج محل تاج تیرے لیے مظہرِ اُلفت ہی سہی تجھ کو اس وادئ رنگیں سے عقیدت ہی سہی میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے بزمِ شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی ثبت جس راہ پہ ہوں سطوتِ شاہی کے نشاں اس پہ اُلفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی میری محبوب پسِ …

جب کبھی ان کی توجہ میں کمی پائی گئی (ساحر لدھیانوی)

  جب کبھی ان کی توجہ میں کمی پائی گئی ازسرِ نو داستانِ عشق دہرائی گئی   اے غمِ دنیا ! تجھے کیا علم تیرے واسطے کن بہانوں سے طبیعت راہ پر لائی گئی   ہم کریں ترکِ وفا اچھا چلو یوں ہی سہی اور اگر ترکِ وفا سے بھی نہ رسوائی گئی   کیسے کیسے …