زخم دل کے اگر سیئے ہوتے (عبد الحمید عدم)
زخم دل کے اگر سیئے ہوتے اہلِ دل کس طرح جیئے ہوتے وہ ملے بھی تو اک جھجک سی رہی کاش تھوڑی سی ہم پیئے ہوتے آرزو مطمئن تو ہو جاتی اور بھی کچھ ستم کئے ہوتے لذتِ غم تو بخش دی اس نے حوصلے بھی عدم دیئے ہوتے
اردوکےمشہورشعئرا اور ان کاکلام
زخم دل کے اگر سیئے ہوتے اہلِ دل کس طرح جیئے ہوتے وہ ملے بھی تو اک جھجک سی رہی کاش تھوڑی سی ہم پیئے ہوتے آرزو مطمئن تو ہو جاتی اور بھی کچھ ستم کئے ہوتے لذتِ غم تو بخش دی اس نے حوصلے بھی عدم دیئے ہوتے
وہ باتیں تِری وہ فسانے تِرے شگفتہ شگفتہ بہانے تِرے بس اِک داغِ سجدہ مِری کائنات جبینیں تِری آستانے تِرے فقیروں کا جمگھٹ گھڑی دو گھڑی شرابیں تِری بادہ خانے تِرے بہار و خزاں کم نگاہوں کے وہم بُرے یا بھلے سب زمانے تِرے عدم بھی ہے تیرا حکایت کدہ کہاں …
مطلب معاملات کا کچھ پا گیا ہوں میں ہنس کر فریبِ چشمِ کرم کھا گیا ہوں میں ساقی ذرا نگاہ ملا کر تو دیکھنا کمبخت ہوش میں تو نہیں آگیا ہوں میں شاید مجھے نکال کے پچھتارہے ہوں آپ محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں کیا اب حساب بھی …
خوش ہوں کہ زندگی نے کوئی کام کر دیا مجھ کو سپردِ گردشِ ایام کر دیا ساقی سیاہ خانئہ ہستی میں دیکھنا روشن چراغ کس نے سرِ شام کر دیا پہلے مِرے خلوص کو دیتے رہے فریب آخر مِرے خلوص کو بدنام کر دیا کتنی دعائیں دوں تِری زلفِ دراز …
لہرا کے ، جھوم جھوم کے لا ، مسکرا کے لا پھولوں کے رس میں چاند کی کرنیں ملا کے لا کہتے ہیں عمرِ رفتہ کبھی لوٹتی نہیں جا مے کدے سے میری جوانی اتھا کے لا ساغر شکن ہے شیخِ بلا نوش کی نظر شیشے کو زیرِ دامنِ رنگیں چھپا کے لا …
جو بھی تیرے فقیر ہوتے ہیں آدمی بے نظیر ہوتے ہیں تیری محفل میں بیٹھنے والے کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں پھول دامن میں چند لے لیجے راستے میں فقیر ہوتے ہیں جو پرندے کی آنکھ رکھتے ہیں سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں اے عدم احتیاط لوگوں سے لوگ منکر …