کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا (احمد ندیم قاسمی)

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا میں تو دریا ہوں سمندر میں اُتر جاؤں گا   تیرے پہلو سے جو اٹھوں گا تو مشکل یہ ہے صرف اک شخص کو پاؤں گا جدھرجاؤں گا   اب تِرے شہر میں آؤں گا مسافر کی طرح سایئہ ابر کی مانند گزر جاؤں گا …

قرارِ جاں بھی تمہی ، اضطرابِ جاں بھی تمہی (احمد ندیم قاسمی)

قرارِ جاں بھی تمہی ، اضطرابِ جاں بھی تمہی مرا یقیں بھی تمہی ، مرا گماں بھی تمہی   تمہاری جان ہے نکہت، تمہارا جسم بہار مری غزل بھی تمہی، میری داستاں بھی تمہی   یہ کیا طلسم ہے ، دریا میں بن کے عکسِ قمر رُکے ہوئے بھی تمہی ہو ،  رواں دواں بھی …

فاصلے کے معنی کا کیوں فریب کھاتے ہو (احمد ندیم قاسمی)

فاصلے کے معنی کا  کیوں فریب کھاتے ہو جتنے دور جاتے ہو ، اتنے پاس آتے ہو   رات ٹوٹ پڑتی ہے جب  سکوتِ زنداں پر تم مِرے خیالوں میں چُھپ کے گنگناتے ہو   میری خلوتِ غم کے آہنی دریچوں پر اپنی مسکراہٹ کی شمعیں جلاتے ہو   جب تنی سلاخوں سے جھانکتی ہے …

کب سے ہوں کیا بتاؤں جہانِ خراب میں (مرزا غالب)

کب سے ہوں کیا بتاؤں جہانِ خراب میں شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں   تا پھر نہ انتطار میں نیند آئے عمر بھر آنے کا وعدہ کر گئے آئے جو خواب میں   قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے خط کے …

درد منت کشِ دوا نہ ہوا (مرزا غالب)

درد منت کشِ دوا نہ ہوا میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا   جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو اک تماشہ ہوا گلہ نہ ہوا   کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا   ہے خبر گرم ان کے آنے کی آج ہی گھر میں بوریا نہ …

شوق ہر رنگ رقیبِ سرو ساماں نکلا (مرزا غالب)

شوق ہر رنگ رقیبِ سرو ساماں نکلا قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا   زخم نے داد نہ دی تنگئی دل کی یارب تیر بھی سینئہ بسمل سے پُرافشاں نکلا   بوئے گل، نالئہ دل ، دودِ چراغِ محفل جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا   دلِ حسرت زدہ تھا مائدۃ …

اتنا تو زندگی میں کسی کے خلل پڑے (کیفی اعظمی)

اتنا تو زندگی میں کسی کے خلل پڑے ہنسنے سے ہو سکوں نہ رونے سے کل پڑے   جس طرح ہنس رہا ہوں میں پی پی کے گرم اشک یوں دوسرا ہنسے تو کلیجہ نکل پڑے   اک تم کہ تم کو فکرِ نشیب و فراز ہے اک ہم کہ چل پڑے تو بہرحال چل …

جب بھی چوم لیتا ہوں ان حسین آنکھوں کو (کیفی اعظمی)

ایک لمحہ   جب بھی چوم لیتا ہوں ان حسین آنکھوں کو سو چراغ اندھیرے میں جھلملانے لگتے ہیں خشک خشک ہونٹوں میں جیسے دل کھنچ آتا ہے دل میں کتنے آئینے تھرتھرانے لگتے ہیں پھول کیا، شگوفے کیا، چاند کیا، ستارے کیا سب رقیب قدموں پر سر جھکانے لگتے ہیں ذہن جاگ اٹھتا ہے …

جب تصور مِرا چپکے سے تجھے چھو آئے (قتیل شفائی)

جب تصور مِرا چپکے سے تجھے چھو آئے اپنی ہر سانس سے مجھ کو تری خوشبو آئے   مشغلہ اب ہے مرا چاند کو تکتے رہنا رات بھر چین نہ مجھ کو کسی پہلو آئے   جب کبھی گردشِ دوراں نے ستایا مجھ کو مری جانب ترے پھیلے ہوئے بازو آئے   جب بھی سوچا …

جوبھی غنچہ ترے ہونٹوں پہ کھلا کرتا ہے (قتیل شفائی)

جوبھی غنچہ ترے ہونٹوں پہ کھلا کرتا ہے وہ مری تنگئی داماں کا گلہ کرتا ہے   دیر سے آج میرا سر ہے ترے زانو پر یہ وہ رتبہ ہے جو شاہوں کو ملا کرتا ہے   میں تو بیٹھا ہوں دبائے ہوئے طوفانوں کو تو مرے دل کے دھڑکنے کا گلہ کرتا ہے   …