Monthly archives: September, 2020

رابطہ رکھ تیرگی سے روشنی کو چھوڑ دے (قمر انجم)

رابطہ رکھ تیرگی سے روشنی کو چھوڑ دے جو اذیت ناک ہو ایسی خوشی کو چھوڑ دے جانتے سب ہیں کہ اس کے بعد ہے دور خزاں کیوں نہ دامان بہار زندگی کو چھوڑ دے وقت اپنے آپ میں اک فتنئہ بیدار ہے وقت کے کہنے پہ کوئی کیوں کسی کو چھوڑ دے اس سے …

دل میں جب سے ہوا قیام ترا (قمر انجم)

دل میں جب سے ہوا قیام ترا ہر کوئی پوچھتا ہے نام ترا سب کے احساس پر چھایا ہے تو ہر جگہ پر ہے ذکر عام ترا ہٹ کے چلتی ہے تیرے پیکر سے دھوپ کرتی ہے احترام ترا تیرے قدموں کے ساتھ چلتا ہے راستہ بھی ہوا غلام ترا روز آتی تو ہے صبا …

جذبئہ دل کا اظہار نہ ہونے پائے (قمر انجم)

جذبئہ دل کا اظہار نہ ہونے پائے حسن رسوا سر بازار نہ ہونے پائے مدتوں محفل ساقی میں رہے ہیں لیکن جام چھونے کے گنہ گار نہ ہونے پائے بزم احباب میں آیا ہوں مگر ڈر یہ ہے کوئی فتنہ پس دیوار نہ ہونے پائے آؤ تعمیر کریں ایسا محبت کا مکاں وقت کے ہاتھوں …

اس کو نذرانئہ جاں پیش کیا ہے میں نے (قمر انجم)

اس کو نذرانئہ جاں پیش کیا ہے میں نے یوں ثبات اپنی وفاؤں کا دیا ہے میں نے اے مرے دامن صد چاک پہ ہنسنے والے یاد کر تیرا گریباں بھی سیا ہے میں نے خود کشی کی مرے دل نے مجھے دی ہے ترغیب جب کسی غیر کا احسان لیا ہے میں نے غیرت …

یہ ہونٹ ترے ریشم ایسے (ثروت حسین)

یہ ہونٹ ترے ریشم ایسے کھِلتے ہیں شگوفے کم ایسے یہ باغ چراغ سی تنہائی یہ ساتھ گل و شبنم ایسے مِری دھوپ میں آنے سے پہلے کبھی دیکھے تھے موسم ایسے کس فصل میں کب یکجا ہوں گے سامان ہوئے ہیں بہم ایسے سینے میں آگ جہنم سی اور جھونکے باغِ ارم جیسے

میں تمہیں یاد کر رہا تھا(ثروت حسین)

میں تمہیں یاد کر رہا تھا جب درخت خاموش تھے اور بادل شور کر رہے تھے میں تمہیں یاد کر رہا تھا جب عورتیں آگ روشن کر رہی تھیں میں تمہیں یاد کر رہا تھا جب میدان سے ایک بچے کا جنازہ گزر رہا تھا میں تمہیں یاد کر رہا تھا ھب قیدیوں کی گاڑی …

دشت لے جائے کہ گھر لے جائے (ثروت حسین)

دشت لے جائے کہ گھر لے جائے تیری آواز جدھر لے جائے اب یہی سوچ رہی ہیں آنکھیں کوئی تا حد نظر لے جائے منزلیں بجھ گئیں چہروں کی طرح اب جدھر راہ گزر لے جائے تیری آشفتہ مزاجی اے دل کیا خبر کون نگر لے جائے سایئہ ابر سے پوچھو ثروت اپنے ہمراہ اگر …

جب شام ہوئی میں نےقدم گھر سے نکالا (ثروت حسین)

جب شام ہوئی میں نےقدم گھر سے نکالا ڈوبا ہو اخورشید سمندر سے نکالا ہر چند کہ اس رہ میں تہی دست رہے ہم سودائے محبت نہ مگر سر سے نکالا جب چاند نمودار ہوا دور افق پر ہم نے بھی پری زاد کو پتھر سے نکالا دہکا تھا چمن اور دم صبح کسی نے …

کوئی اٹکا ہوا ہے پل شاید (ثروت حسین)

کوئی اٹکا ہوا ہے پل  شاید وقت میں پڑ گیا ہے بل شاید لب پہ آئی مری غزل شاید وہ اکیلے ہیں آج کل شاید دل اگر ہے تو درد بھی ہو گا اس کا کوئی نہیں ہے حل شاید جانتے ہیں ثواب رحم و کرم ان سے ہوتا نہیں عمل شاید آ رہی ہے …