Category «بشیر بدر»

مسکراتی ہوئی دھنک ہے وہی (بشیر بدر)

مسکراتی ہوئی دھنک ہے وہی اس بدن میں چمک دمک ہے وہی پھول مرجھا گئے اجالوں کے سانولی شام میں نمک ہے وہی اب بھی چہرہ چراغ لگتا ہے بجھ گیا ہے مگر چمک ہے وہی وہ سراپا دیئے کی لو جیسا میں ہوا ہوں ادھر لپک ہے وہی کوئی شیشہ ضرور ٹوٹا ہے گنگتاتی …

مسافر کے رستے بدلتے رہے (بشیر بدر)

مسافر کے رستے بدلتے رہے مقدر میں چلنا تھا چلتے رہے سنا ہے انہیں بھی ہوا لگ گئی ہواؤں کے رُخ جو بدلتے رہے محبت عداوت وفا بے رُخی کرائے کے گھر تھے بدلتے رہے وہ کیا تھا جسے ہم نے ٹھکرادیا مگر عمر بھر ہاتھ ملتے رہے کوئی پھول سا ہاتھ کاندھے پہ تھا …

یونہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر بھی رہا کرو (بشیر بدر)

یونہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر بھی رہا کرو وہ غزل کی سچی کتاب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے یہ نئے مزاج کا شہر ہے یہاں فاصلے سے ملا کرو ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا …

کوئی پھول دھوپ کی پتیوں میں ہرے ربن سے بندھا ہوا (بشیر بدر)

کوئی پھول دھوپ کی پتیوں میں ہرے ربن سے بندھا ہوا وہ غزل کا لہجہ نیا نیا نہ کہا ہوا نہ سنا ہوا جسے لے گئی ہے ابھی ہوا وہ ورق تھا دل کی کتاب کا کہیں آنسوؤں سے مٹا ہوا کہیں آنسوؤں سے لکھا ہوا کئی میل ریت کو کاٹ کر کوئی موج پھول …

بے وفا با وفا نہیں ہوتا (بشیر بدر)

بے وفا با وفا نہیں ہوتا ختم یہ فاصلہ نہیں ہوتا کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا گفتگو ان سے روز ہوتی ہے  مدتوں سامنا نہیں ہوتا جی بہت چاہتا ہے سچ بولیں کیا کریں حوصلہ نہیں ہوتا رات کا انتظار کون کرے آج کل دن میں کیا نہیں …

کبھی یوں بھی آ مری آنکھ میں (بشیر بدر)

کبھی یوں بھی آ مری آنکھ میں کہ مری نظر کو خبر نہ ہو مجھے ایک رات نواز دے مگر اس کے بعد سحر نہ ہو وہ بڑا رحیم و کریم ہے مجھے یہ صفت بھی عطا کرے تجھے بھولنے کی دعا کروں تو مری دعا میں اثر نہ ہو مرے بازوؤں میں تھکی تھکی …

ریت بھری ہے ان آنکھوں میں تم اشکوں سے دھو لینا (بشیر بدر)

ریت بھری ہے ان آنکھوں میں تم اشکوں سے دھو لینا کوئی سوکھا پیڑ ملے تو اس سے لپٹ کر رو لینا اس کے بعد بھی تم تنہا ہو، جیسے جنگل کا رستہ جو بھی تم سے پیار سے بولے ساتھ اس کے ہو لینا کچھ تو ریت کی پیاس بجھاؤ جنم جنم کی پیاسی …

پتھر کے جگر والو غم میں وہ روانی ہے (بشیر بدر)

پتھر کے جگر والو غم میں وہ روانی ہے خود راہ بنا لے گا بہتا ہوا پانی ہے پھولوں میں غزل رکھنا یہ رات کی رانی ہے اس میں تری زلفوں کی بے ربط کہانی ہے اک ذہنِ پریشاں میں وہ پھول سا چہرہ ہے پتھر کی حفاظت میں شیشے کی جوانی ہے کیوں چاندنی …

اداسی کا یہ پتھر آنسوؤں سے نم نہیں ہوتا (بشیر بدر)

اداسی کا یہ پتھر آنسوؤں سے نم نہیں ہوتا ہزاروں جگنوؤں سے بھی اندھیرا کم نہیں ہوتا کبھی برسات میں شاداب بیلیں سوکھ جاتی ہیں ہرے پیڑوں کے گرنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا بہت سے لوگ دل کو اس طرح محفوظ رکھتے ہیں کوئی بارش ہو یہ کاغذ ذرا بھی نم نہیں ہوتا بچھڑتے …