Category «شاعری»

کوئی عاشق کسی محبوبہ سے (فیض احمد فیض)

گلشنِ یاد میں گر آج دمِ بادِ صبا پھر سے چاہے کہ گل ا فشاں ہو تو ہو جانے دو عمرِ رفتہ کے کسی طاق پہ بسرا ہوا درد پھر سے چاہے کہ فروزاں ہو تو ہو جانے دو جیسے بیگانہ سے اب ملتے ہو ویسے ہی سہی آؤ دو چار گھڑی میرے مقابل بیٹھو …

شام آئی ، تری یادوں کے ستارے نکلے (پروین شاکر)

  شام آئی ، تری یادوں کے ستارے نکلے رنگ ہی غم کے نہیں،  نقش بھی پیارے نکلے   ایک موہوم تمنا کے سہارے نکلے چاند کے ساتھ ہجر کے مارے نکلے   کوئی موسم ہو مگر شانِ خم و پیچ ہے وہی رات کی طرح کوئی زلف سنوارے نکلے   رقص جن کا ہمیں …

خیال و خواب ہوا برگ و بار کا موسم (پروین شاکر)

  خیال و خواب ہوا برگ و بار کا موسم بچھڑ گیا تری صورت ، بہار کا موسم   کئی رتوں سے مرے نیم وا دریچوں میں ٹھہر گیا ترے انتظار کا موسم   وہ نرم لہجے میں کچھ  تو کہے  کہ لوٹ آئے سماعتوں کی زمیں پر پھوار کا موسم   پیام آیا ہے …

جو اتنا ملائم ہے ، جیسے (میر تقی میر)

جو اتنا ملائم ہے ، جیسے دھنک گیت بن کر سماعت کو چھونے لگی ہو شفق نرم  کومل سروں میں کوئی پیار کی بات کہنے چلی ہو کس قدر !۔۔۔۔۔رنگ و آہنگ کا کس قدر خوبصورت سفر! وہی نرم لہجہ کبھی اپنے مخصوص انداز میں مجھ سے باتیں کرے گا تو ایسا لگے جیسے ریشم …

وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا (پروین شاکر)

  وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا   ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اتر جائے گا   وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے ایک جھونکا ہے جو آئے گا …

اک ہنر تھا کمال تھا کیا تھا (پروین شاکر)

  اک ہنر تھا کمال تھا کیا تھا مجھ میں تیرا جمال تھا کیا تھا   تیرے جانے پہ اب کے کچھ نہ کہا دل میں ڈر تھا ملال تھا کیا تھا   ہم تک آیا تو بہر لطف و کرم تیرا وقت زوال تھا کیا تھا   جس نے تہ سے مجھے اچھال دیا …

دعا کا ٹوٹا ہوا حرف سرد آہ میں ہے (پروین شاکر)

  دعا کا ٹوٹا ہوا حرف سرد آہ میں ہے تری جدائی کا منظر ابھی نگاہ میں ہے   ترے بدلنے کے باوصف تجھ کو چاہا ہے یہ اعتراف بھی شامل مرے گناہ میں ہے   عذاب دے گا تو پھر مجھ کو خواب بھی دے گا میں مطمئن ہوں مرا دل تری پناہ میں …

جب کبھی ان کی توجہ میں کمی پائی گئی (ساحر لدھیانوی)

  جب کبھی ان کی توجہ میں کمی پائی گئی ازسرِ نو داستانِ عشق دہرائی گئی   اے غمِ دنیا ! تجھے کیا علم تیرے واسطے کن بہانوں سے طبیعت راہ پر لائی گئی   ہم کریں ترکِ وفا اچھا چلو یوں ہی سہی اور اگر ترکِ وفا سے بھی نہ رسوائی گئی   کیسے کیسے …