Category «شاعری»

نہ جانے کب وہ پلٹ آئیں در کھلا رکھنا (افتخار نسیم)

نہ جانے کب وہ پلٹ آئیں در کھلا رکھنا گئے ہوئے کے لیے دل میں کچھ جگہ رکھنا ہزار تلخ ہوں یادیں مگر وہ جب بھی ملے زباں پہ اچھے دنوں کا ہی ذائقہ رکھنا نہ ہو کہ قرب ہی پھر مرگ ربط بن جائے وہ اب ملے تو ذرا اس سے فاصلہ رکھنا اتار …

چاند پھر تاروں کی اجلی ریز گاری دے گیا (افتخار نسیم)

چاند پھر تاروں کی اجلی ریز گاری دے گیا رات کو یہ بھیک کیسی خود بھکاری دے گیا ٹانکتی پھرتی ہیں کرنیں بادلوں کی شال پر وہ ہوا کے ہاتھ میں گوٹا کناری دے گیا کر گیا ہے دل کو ہر اک واہمے سے بے نیاز روح کو لیکن عجب سی بے قراری دے گیا …

ہاتھ ہاتھوں میں نہ دے بات ہی کرتا جائے (افتخار نسیم)

ہاتھ ہاتھوں میں نہ دے بات ہی کرتا جائے ہے بہت لمبا سفر یوں تو نہ ڈرتا جائے جی میں ٹھانی ہے کہ جینا ہے بہرحال مجھے جس کو مرنا ہے وہ چپ چاپ ہی مرتا جائے خود کو مضبوط بنا رکھے پہاڑوں کی طرح ریت کا آدمی اندر سے بکھرتا جائے سرخ پھولوں کا …

کچھ نہ کچھ سوچتے رہا کیجے (رسا چغتائی)

کچھ نہ کچھ سوچتے رہا کیجے آسماں دیکھتے رہا کیجے چار دیواریٔ عناصر میں کودتے پھاندتے رہا کیجے اس تحیر کے کارخانے میں انگلیاں کاٹتے رہا کیجے کھڑکیاں بے سبب نہیں ہوتیں تاکتے جھانکتے رہا کیجے راستے خواب بھی دکھاتے ہیں نیند میں جاگتے رہا کیجے فصل ایسی نہیں جوانی کی دیکھتے بھالتے رہا کیجے …

ممکن ہے وہ دن آئے کہ دنیا مجھے سمجھے (رسا چغتائی)

ممکن ہے وہ دن آئے کہ دنیا مجھے سمجھے لازم نہیں ہر شخص ہی اچھا مجھے سمجھے ہے کوئی یہاں شہر میں ایسا کہ جسے میں اپنا نہ کہوں اور وہ اپنا مجھے سمجھے ہر چند مرے ساتھ رہے اہل بصیرت کچھ اہل بصیرت تھے کہ تنہا مجھے سمجھے میں آج سر آتش نمرود کھڑا …

کہاں جاتے ہیں آگے شہر جاں سے (رسا چغتائی)

کہاں جاتے ہیں آگے شہر جاں سے یہ بل کھاتے ہوئے رستے یہاں سے وہاں اب خواب گاہیں بن گئی ہیں اٹھے تھے آب دیدہ ہم جہاں سے زمیں اپنی کہانی کہہ رہی ہے الگ اندیشۂ سود و زیاں سے انہیں بنتے بگڑتے دائروں میں وہ چہرہ کھو گیا ہے درمیاں سے اٹھا لایا ہوں …

ترے نزدیک آ کر سوچتا ہوں (رسا چغتائی)

ترے نزدیک آ کر سوچتا ہوں میں زندہ تھا کہ اب زندہ ہوا ہوں جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو میں ان آنکھوں سے دنیا دیکھتا ہوں خدا جانے مری گٹھری میں کیا ہے نہ جانے کیوں اٹھائے پھر رہا ہوں یہ کوئی اور ہے اے عکس دریا میں اپنے عکس کو پہچانتا ہوں …

جاؤ، شیشے کے بدن لے کے کدھر جاؤ گے (احمد راہی)

جاؤ، شیشے کے بدن لے کے کدھر جاؤ گے لوگ پتھر کے ہیں چھُو لیں گے بکھر جاؤ گے مسکراہٹ کی تمنا لیے نکلو گے، مگر اک صفر لے کے فقط شام کو گھر جاؤ گے چاند سونے کے پہاڑوں سے نہیں اترے گا تم سمندر ہو،۔۔۔۔ بہرحال اتر جاؤ گے میں تو خوشبو ہوں …

ہونٹوں پہ محبت کے فسانے نہیں آتے (بشیر بدر)

ہونٹوں پہ محبت کے فسانے نہیں آتے ساحل پہ سمندر کے خزانے نہیں آتے پلکیں بھی چمک اٹھتی ہیں سونے میں ہماری آنکھوں کو ابھی خواب چھپانے نہیں آتے دل اجڑی ہوئی ایک سرائے کی طرح ہے اب لوگ یہاں رات جگانے نہیں آتے یارو نئے موسم نے یہ احسان کیے ہیں اب یاد مجھے …