نہ جانے کب وہ پلٹ آئیں در کھلا رکھنا (افتخار نسیم)
نہ جانے کب وہ پلٹ آئیں در کھلا رکھنا گئے ہوئے کے لیے دل میں کچھ جگہ رکھنا ہزار تلخ ہوں یادیں مگر وہ جب بھی ملے زباں پہ اچھے دنوں کا ہی ذائقہ رکھنا نہ ہو کہ قرب ہی پھر مرگ ربط بن جائے وہ اب ملے تو ذرا اس سے فاصلہ رکھنا اتار …