Monthly archives: November, 2019

پہلو سے جب وہ لے گئے دل کو نکال کے (محمد برکت اللہ رضا)

پہلو سے جب وہ لے گئے دل کو نکال کے اُف کرکے رہ گیا میں کلیجہ سنبھال کے کرتے ہیں یاد ہجر میں ہم دن وصال کے پیری میں تذکرے ہیں جوانی کے حال کے جانا اودھر کو طائرِ دل دیکھ بھال کے خلقے نہیں ہیں زلف کے پھندے میں جال کے چل جائیں آپ …

آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں (حیرت الٰہ آبادی)

آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں آ جائیں رعب غیر میں ہم وہ بشر نہیں کچھ آپ کی طرح ہمیں لوگوں کا ڈر نہیں اک تو شب فراق کے صدمے ہیں جاں گداز اندھیر اس پہ یہ ہے کہ ہوتی سحر نہیں کیا کہئے اس …

یاد کرنے پہ نہ یاد آئیں زمانے ہو جائیں (سلیم کوثر)

یاد کرنے پہ نہ یاد آئیں زمانے ہو جائیں وہ نئے حرف نہ لکھو جو پرانے ہو جائیں ہم سخاوت ہی پہ آمادہ نہیں ہیں، ورنہ دل ہمارے بھی محبت کے خزانے ہو جائیں کون پرچھائیوں کے عکس کو پہچانے گا گھر اگر گھر نہ رہیں، آئینہ خانے ہو جائیں زندگی ایسا بیاباں ہے کہ …

وقت ہی کم تھا فیصلے کے لئے (ضیا مذکور)

وقت ہی کم تھا فیصلے کے لئے ورنہ میں آتا مشورے کے لئے تم کو اچھے لگے تو تم رکھ لو پھول توڑے تھے بیچنے کے لئے گھنٹوں خاموش رہنا پڑتا ہے آپ کے ساتھ بولنے کے لئے سیکڑوں کنڈیاں لگا رہا ہوں چند بٹنوں کو کھولنے کے لئے ایک دیوار باغ سے پہلے اک …

ہم اگر تیرے خدوخال بنانے لگ جائیں (مبشر سعید)

ہم اگر تیرے خدوخال بنانے لگ جائیں صرف آنکھوں پہ کئی ایک زمانے لگ جائیں میں اگر پھول کی پتی پہ ترا نام لکھوں تتلیاں اُڑ کے ترے نام پہ آنے لگ جائیں تو اگر ایک جھلک اپنی دکھا دے اُن کو سب مصور تری تصویر بنانے لگ جائیں ایک لمحے کو اگر تیرا تبسم …

محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے (حفیظ ہوشیار پوری)

محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے میں اکثر  سوچتا ہوں پھول کب تک شریکِ گریئہ شبنم نہ ہوں گے دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے زمانے بھر کے غم یا اک ترا غم یہ غم ہو گا تو کتنے …

قرب کے نہ وفا کے ہوتے ہیں (اختر ملک)

قرب کے نہ وفا کے ہوتے ہیں سارے جھگڑے اَنا کے ہوتے ہیں بات نیت کی ہے صرف ورنہ وقت سارے دعا کے ہوتے ہیں بھول جاتے ہیں ، مت برا کہنے لوگ پُتلے خطا کے ہوتے ہیں وہ جو بظاہر کچھ نہیں لگتے ان سے رشتے بلا کے ہوتے ہیں وہ ہمارا ہے اسطرح …

عرضِ اُلفت پہ وہ خفا بھی ہُوئے (شفیق خلش)

عرضِ اُلفت پہ وہ خفا بھی ہُوئے ہم پہ اِس جُرم کی سزا بھی ہُوئے زندگی تھی ہماری جن کے طُفیل وہ ہی خفگی سے پھر قضا بھی ہُوئے بے سبب کب ہیں میرے رنج و مَحِن دوست، دُشمن کے ہمنوا بھی ہُوئے کیا اُمید اُن سے کچھ بدلنے کی ظلم اپنے جنھیں رَوا بھی …

شہر کی آنکھ میں مہتاب نہیں آ سکتا (احمد عطاءاللہ)

شہر کی آنکھ میں مہتاب نہیں آ سکتا گاؤں سے اڑ کے تو تالاب نہیں آ سکتا روز اک پیڑ سے کرتا ہوں تمہاری باتیں جو تمہیں دیکھنے پنجاب نہیں آ سکتا گاؤں کے کچے سکولوں کی پڑھی لڑکی سن شہر والوں کو ترا خواب نہیں آ سکتا میرے شکوے پہ سمندر نے مجھے خط …

تھوڑی سی روشنی کے وہ آثار کیا ہوئے( محسن احسان)

تھوڑی سی روشنی کے وہ آثار کیا ہوئے رکھے تھے جو دِیے سرِ دیوار کیا ہوئے چارہ گروں کی سازشِ چارہ گری گئی اے شہرِ آرزو! تِرے بیمار کیا ہوئے کندہ تھے جتنے حرف وہ کتبوں سے مِٹ گئے قبروں سے پوچھتا ہوں مِرے یار کیا ہوئے تنہا کھڑا ہوں میں بھی سرِ کربلائے عصر …