Monthly archives: November, 2019

تجھ کو کو آتے ہی نہیں چھپنے کے انداز ابھی (صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)

تجھ کو کو آتے ہی نہیں چھپنے کے انداز ابھی میرے سینے میں ہے لرزاں تری آواز ابھی اس نے دیکھا ہی نہیں درد کا آغاز ابھی عشق کو اپنی تمناؤں پہ ہے ناز ابھی تجھکو منزل پہ پہنچنے کا ہے دعویٰ ہمدم مجھ کو انجام نظر آتا ہے آغاز ابھی کس قدر گوش بر …

تپتی یادوں میں اک یاد سہانی ہوتی تھی (اجمل صدیقی)

تپتی یادوں میں اک یاد سہانی ہوتی تھی جلتی راتوں میں اک رات کی رانی ہوتی تھی اب میں بھولتا جاتا ہوں سب، یاد بھی کیوں رکھّوں پہلے تو ہر بات تمہیں بتلانی ہوتی تھی اب تو میں بن شکوہ ہی سب ماننے لگتا ہوں نہیں رہا میں اپنی جسے منوانی ہوتی تھی میرے لب …

اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں (ثناءاللہ ظہیر)

اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں اب میں کچھ اور بھی آسان ہوں دشواری میں کتنی زرخیز ہے نفرت کے لیے دل کی زمیں وقت لگتا ہی نہیں فصل کی تیاری میں اک تعلق کو بکھرنے سے بچانے کے لیے میرے دن رات گزرتے ہیں اداکاری میں وہ کسی اور دوا سے مِرا …

یہ کیسا عشق ہے اردو زباں کا (گلزار)

یہ کیسا عشق ہے اردو زباں کا مزا گھلتا ہے لفظوں کا زباں پر کہ جیسے پان میں مہنگا قمام گھلتا ہے یہ کیسا عشق ہے اردو زباں کا۔۔۔۔ نشہ آتا ہے اردو بولنے میں گلوری کی طرح ہیں منہ لگی سب اصطلاحیں لطف دیتی ہے، حلق چھوتی ہے اردو تو، حلق سے جیسے مے …

میں کائنات میں سیاروں میں بھٹکتا تھا (گلزار)

میں کائنات میں سیاروں میں بھٹکتا تھا دھوئیں میں دھول میں الجھی ہوئی کرن کی طرح میں اس زمیں پہ بھٹکتا رہا ہوں صدیوں تک گرا ہے وقت سے کٹ کر جو لمحہ اس کی طرح وطن ملا تو گلی کے لیے بھٹکتا رہا گلی میں گھر کا نشاں ڈھونڈتا رہا برسوں تمہاری روح میں …

میرے کپڑوں میں ٹنگا ہے (گلزار)

میرے کپڑوں میں ٹنگا ہے تیرا خوش رنگ لباس گھر پہ دھوتا ہوں ہر بار اسے اور سکھا کے پھر سے اپنے ہاتھوں سے اسے استری کرتا ہوں مگر استری کرنے سے جاتی نہیں شکنیں اس کی اور دھونے سے گلے شکوؤں کے چکتے نہیں مٹتے زندگی کس قدر آساں ہوتی رشتے گر ہوتے لباس …

گیٹ کے اندر جاتے ہیں (گلزار)

ماضی۔۔۔۔ مستقبل گیٹ کے اندر جاتے ہیں، ایک حوضِ خاص ہے سینکڑوں قصوں کی کائی سے بھرا ہوا ہے چاروں جانب چھ سو سال پرانے سائے سوکھ رہے ہیں گزرے وقتوں کی تمثیلوں پر گائیڈ ورق لگا کر ماضی بیچ رہا ہے!! ماضی کے اس گیٹ کے باہر ہاتھوں کی ریکھائیں رکھ کے پٹری پر …

کوئی خاموش زخم لگتی ہے (گلزار)

کوئی خاموش زخم لگتی ہے زندگی ایک نظم لگتی ہے بزم یاراں میں رہتا ہوں تنہا اور تنہائی بزم لگتی ہے اپنے سائے پہ پاؤں رکھتا ہوں چھاؤں چھالوں کو نرم لگتی ہے چاند کی نبض دیکھنا اٹھ کر رات کی سانس گرم لگتی ہے یہ روایت کہ درد مہکے رہیں دل کی دیرینہ رسم …

کوئی اٹکا ہوا ہے پل شاید (گلزار)

کوئی اٹکا ہوا ہے پل شاید وقت میں پڑ گیا ہے بل شاید لب پہ آئی مری غزل شاید وہ اکیلے ہیں آج کل شاید دل اگر ہے تو درد بھی ہوگا اس کا کوئی نہیں ہے حل شاید جانتے ہیں ثواب رحم و کرم ان سے ہوتا نہیں عمل شاید آ رہی ہے جو …