Monthly archives: November, 2019

کندھے جھک جاتے ہیں جب (گلزار)

کندھے جھک جاتے ہیں جب بوجھ سے اس لمبے سفر کے ہانپ جاتا ہوں میں جب چڑھتے ہوئے تیز چڑھانیں سانسیں رہ جاتی ہیں جب سینے میں اک گچھا سا ہو کر اور لگتا ہے کہ دم ٹوٹ ہی جائے گا یہیں پر ایک ننھی سی میری نظم سامنے آ کر مجھ سے کہتی ہے …

قدیم راتوں کی ٹوٹی قبروں کے میلے کتبے (گلزار)

قدیم راتوں کی ٹوٹی قبروں کے میلے کتبے دنوں کی ٹوٹی ہوئی صلیبیں گری پڑی ہیں شفق کی ٹھنڈی چتاؤں سے راکھ اڑ رہی ہے جگہ جگہ گرز وقت کے چور ہو گئے ہیں جگہ جگہ ڈھیر ہو گئی ہیں عظیم صدیاں میں کھنڈروں کی زمیں پہ کب سے بھٹک رہا ہوں یہیں مقدس، ہتھیلیوں …

سیلی ھَوا چُھو گئی (گلزار)

سیلی ھَوا چُھو گئی سیلا بدن چِھل گیا  گیلی ندی کے پرے گیلا سا چاند کِھل گیا۔ تُم سی ملی جو زندگی ھم نے ابھی بوئی نہیں تیرے سِوا کوئی نہ تھا  تیرے سِوا کوئی نہیں جانے کہاں کیسے شہر لے کے چلا یہ دل مجھے تیرے بغیر دن نہ جلا تیرے بغیر شب نہ …

رکے رکے سے قدم رک کے بار بار چلے (گلزار)

رکے رکے سے قدم رک کے بار بار چلے قرار دے کے ترے در سے بے قرار چلے اٹھائے پھرتے تھے احسان جسم کا جاں پر چلے جہاں سے تو یہ پیرہن اتار چلے نہ جانے کون سی مٹی وطن کی مٹی تھی نظر میں دھول جگر میں لیے غبار چلے سحر نہ آئی کئی …

رات چپ چاپ دبے پاؤں چلے جاتی ہے (گلزار)

رات چپ چاپ دبے پاؤں چلے جاتی ہے رات خاموش ہے روتی نہیں ہنستی بھی نہیں کانچ کا نیلا سا گنبد ہے اڑا جاتا ہے خالی خالی کوئی بجرا سا بہا جاتا ہے چاند کی کرنوں میں وہ روز سا ریشم بھی نہیں چاند کی چکنی ڈلی ہے کہ گھلی جاتی ہے اور سناٹوں کی …

رات بھر سرد ہوا چلتی رہی (گلزار)

رات بھر سرد ہوا چلتی رہی رات بھر ہم نے الاؤ تاپا میں نے ماضی سے کئی خشک سی شاخیں کاٹیں تم نے بھی گزرے ہوئے لمحوں کے پتے توڑے میں نے جیبوں سے نکالیں سبھی سوکھی نظمیں تم نے بھی ہاتھوں سے مرجھائے ہوئے خط کھولے اپنی ان آنکھوں سے میں نے کئی مانجے …

جھ سے ناراض نہیں زندگی، حیران ہوں میں (گلزار)

تجھ سے ناراض نہیں زندگی، حیران ہوں میں تیرے معصوم سوالوں سے پریشاں ہوں میں جینے کے لیے سوچا ہی نہیں، درد سنبھالنے ہوں گے مسکرائیں تو مسکرانے کے قرض اتارنے ہوں گے مسکراؤں کبھی تو لگتا ہے جیسے ہونٹوں پہ قرض رکھا ہے تجھ سے ناراض نہیں زندگی، حیران ہوں میں تیرے معصوم سوالوں …

پیڑ کے پتوں میں ہلچل ہے، خبردار سے ہیں (گلزار)

پیڑ کے پتوں میں ہلچل ہے، خبردار سے ہیں شام سے تیز ہوا چلنے کے آثار سے ہیں ناخدا دیکھ رہا ہے کہ میں گرداب میں ہوں اور جو پُل پہ کھڑے لوگ ہیں، اخبار سے ہیں چڑھتے سیلاب میں ساحل نے تو منہ ڈھانپ لیا لوگ پانی کا کفن لینے کو تیار سے ہیں …

مجھ کو شکستِ دل کا مزہ یاد آ گیا (خمار بارہ بنکوی)

مجھ کو شکستِ دل کا مزہ یاد آ گیا تم کیوں اداس ہو گئے، کیا یاد آ گیا کہنے کو زندگی تھی بہت مختصر مگر کچھ یوں بسر ہوئی کہ خدا یاد آ گیا برسے بغیر ہی جو گھٹا گھر کے کھل گئی اک بیوفا کا عہدِ وفا یاد آ گیا واعظ سلام لے کہ …

کانچ کے پیچھے چاند بھی تھا (گلزار)

کانچ کے پیچھے چاند بھی تھا اور کانچ کے اوپر کائی بھی تینوں تھے ہم وہ بھی تھے اور میں بھی تھا تنہائی بھی یادوں کی بوچھاروں سے جب پلکیں بھیگنے لگتی ہیں سوندھی سوندھی لگتی ہے تب ماضی کی رسوائی بھی دو دو شکلیں دکھتی ہیں اس بہکے سے آئینے میں میرے ساتھ چلا …