Monthly archives: March, 2020

نہ سہی گر انہیں خیال نہیں (حسرت موہانی)

نہ سہی گر انہیں خیال نہیں کہ ہمارا بھی اب وہ حال نہیں یاد انہیں وعدۃ وصال نہیں کب کیا تھا یہی خیال نہیں ایسے بگڑے وہ سن کے شوق کی بات آج تک ہم سے بول چال نہیں مجھ کو اب غم یہ ہے کہ بعد مرے خاطرِ یار ہے ملال نہیں دل کو …

ہم حال انہیں یوں دل کا سنانے میں لگے ہیں (حسرت موہانی)

ہم حال انہیں یوں  دل کا سنانے میں لگے ہیں کچھ کہتے نہیں پاؤں دبانے میں لگے ہیں لاکھوں ہیں تِری دید کے مشتاق، مگرہم محروم تجھے دل سے بھلانے میں لگے ہیں اور ایسے کہاں حیرت و حسرت کے مرقعے اے دل جو تِرے آئینہ خانے میں لگے ہیں کہنا ہے انہیں یہ کہ …

چُپکے چُکے رات دن انسو بہانا یاد ہے (حسرت موہانی)

چُپکے چُکے رات دن انسو بہانا یاد ہے ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے باہزاراں اضطراب و صد ہزاراں اشتیاق تجھ سے وہ پہلے پہل دل کا لگانا یاد ہے کھینچ لینا وہ مِرا پردے کا کونہ دفعتاً اور دوپٹے سے تِرا وہ منہ چھپانا یاد ہے تجھ سے کچھ مِلتے …

توڑ کر عہدِ کرم ناآشنا ہو جایئے (حسرت موہانی)

توڑ کر عہدِ کرم ناآشنا ہو جایئے بندہ پرور جایئے اچھا خفا ہو جایئے میرے عذرِ جرم پر مطلق نہ کیجے التفات بل کہ پہلے سے بھی بڑھ کر کج ادا ہو جایئے خاطرِ محروم کو بھی کر دیجیے محوِ الم درپئے ایذائے جانِ مبتلا ہو جایئے میری تحریرِ ندامت کا نہ دیجے کچھ جواب …

پردے سے اک جھلک جو وہ دکھلا کے رہ گئے (حسرت موہانی)

پردے سے اک جھلک جو وہ دکھلا کے رہ گئے مشتاقِ دید اور بھی للچا کے رہ گئے گم کردہ راہ عشق فنا کیوں نہ ہو گیا احساں جو اس پہ خضر و مسیحا کے رہ گئے آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہارِ حسن آیا مرا خیال تو شرما کے رہ گئے جب عاشقوں …

بھُلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں (حسرت موہانی)

بھُلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں الٰہی! ترکِ الفت پر وہ کیوں کر یاد آتے ہیں     نہ چھیڑ اے ہم نشیں کیفیتِ صہبا کے افسانے شرابِ بے خودی کے مجھ کو ساغر یاد آتے ہیں رہا کرتے ہیں قیدِ ہوش میں اے وائے ناکامی وہ دشتِ خود فراموشی کے چکر یاد آتے ہیں …

اپنا سا شوق اروں میں لائیں کہاں سے ہم (حسرت موہانی)

اپنا سا شوق اروں میں لائیں کہاں سے ہم گھبرا گئے ہیں بے دلئی ہمرہاں سے ہم معلوم سب ہے پوچھتے ہو پھر بھی مدعا اب تم سے دل کی بات کہیں کیا زباں سے ہم مایوس بھی تو کرتے نہیں تم زراہِ ناز تنگ آگئے ہیں کش مکشِ امتحاں سے ہم ہے انتہائے یاس …

بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا (غلام محمد قاصر)

بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا وہ شخص جس کا مجھے نام بھی نہیں آتا اس کی شکل مجھے چاند میں نظر آئی وہ ماہ رُخ جو لبِ بام بھی نہیں آتا کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا بٹھا دیا مجھے دریا …

شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے (غلام محمد قاصر)

شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے گھستے گھستے گھس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے خارِ چمن تھے شبنم شبنم، پھول بھی سارے گیلے تھے شاخ سے ٹوٹ کے گرنے والے پتے پھر بھی پیلے تھے سرد ہواؤں سے تو تھے ساحل کی ریت کے یارانے لو کے تھپیڑے سہنے والے صحراؤں …