ہر ذرۃ امید سے خوشبو نکل آئے (نوشی گیلانی)
ہر ذرۃ امید سے خوشبو نکل آئے تنہائی کے صحرا سے اگر تو نکل آئے کیسا لگے اس بار اگر موسمِ گل میں تتلی کا بدن اوڑھ کے جگنو نکل آئے پھر دن تری یاد کی منڈیروں پہ گزرا پھر شام ہوئی آنکھ سے آنسو نکل آئے بے چین کئے رہتا ہے دھڑکا یہی جی …