Monthly archives: May, 2020

اپنے ہونٹوں پر سجانا چاہتا ہوں (قتیل شفائی)

اپنے ہونٹوں پر سجانا چاہتا ہوں آ تجھے میں گنگنانا چاہتا ہوں کوئی آنسو تیرے دامن پر گرا کر بوند کو موتی بنانا چاہتا ہوں تھک گیا میں کرتے کرتے یاد تجھ کو اب تجھے میں یاد آنا چاہتا ہوں چھا رہا ہے ساری بستی میں اندھیرا روشنی کو گھر بلانا چاہتا ہوں آخری ہچکی …

لاکھ پردوں میں رہوں بھید مرے کھولتی ہے (قتیل شفائی)

شاعری سچ بولتی ہے لاکھ پردوں میں رہوں بھید مرے کھولتی ہے شاعری سچ بولتی ہے میں نے دیکھا ہے کہ جب میری زباں ڈولتی ہے شاعری سچ بولتی ہے تیرا اصرار کہ چاہت مری بے تاب نہ ہو واقف اس غم سے مرا حلقئہ احباب نہ ہو تو مجھے ضبط کے صحراؤں میں کیوں …

گرمئی حسرتِ ناکام سے جل جاتے ہیں (قتیل شفائی)

گرمئی حسرتِ ناکام سے جل جاتے ہیں ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے ہم اُسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں بچ نکلتے ہیں اگر آتشِ سیال سے ہم شعلئہ عارضِ گلفام سے جل جاتے ہیں خودنمائی تو نہیں شیوۃ اربابِ وفا …

چہرے پہ مرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن (امجد اسلام امجد)

چہرے پہ مرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن کیا روز گرجتے ہو برس جاؤ کسی دن رازوں کی طرح اترو مرے دل میں کسی شب دستک پہ مرے ہاتھ کی کھل جاؤ کسی دن پیڑوں کی طرح حُسن کی بارش میں نہا لوں بادل کی طرح جھوم کے گھِر آؤ کسی دن خوشبو کی طرح …

بھیڑ میں اِک اجنبی کا سامنا اچھا لگا (امجد اسلام امجد)

بھیڑ میں اِک اجنبی کا سامنا اچھا لگا سب سے چھپ کر وہ کسی کا دیکھنا اچھا لگا سرمئی آنکھوں کے نیچے پھول سے کھِلنے لگے کہتے کہتے کچھ کسی کا سوچنا اچھا لگا بات تو کچھ بھی نہیں تھی لیکن اس کا اِک دم ہاتھ کو ہونٹوں پہ رکھ کر روکنا اچھا لگا چائے …

پہلے تو اپنے دل کی رضا جان جائیے (قتیل شفائی)

پہلے تو اپنے دل کی رضا جان جائیے پھر جو نگاہِ یار کہے مان جائیے شاید حضور سے کوئی نسبت ہمیں بھی ہو آنکھوں میں جھانک کر ہمیں پہچان جائیے اک دھوپ سی جمی ہے نگاہوں کے آس پاس یہ آپ ہیں تو آپ پہ قربان جائیے کچھ کہہ رہی ہیں آپ کے سینے کی …

پریشاں رات ساری ہے ستارو تم تو سو جاؤ (قتیل شفائی)

پریشاں رات ساری ہے ستارو تم تو سو جاؤ سکوتِ مرگ طاری ہے ستارو  تم تو سو جاؤ ہنسو اور ہنستے ہنستے ڈوب جاؤ خلاؤں میں ہمیں پہ رات بھاری ہے ستارو تم تو سو جاؤ ہمیں تو آج کی شب پو پھٹے تک جاگنا ہو گا یہی قسمت ہماری ہے، ستارو تم تو سو …

ذکرِ شبِ فراق سے وحشت اسے بھی تھی (محسن نقوی)

ذکرِ شبِ فراق سے وحشت اسے بھی تھی میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا راستہ بدل کے چلنے کی عادت اسے بھی تھی اس رات دیر تک وہ رہا محوِ گفتگو مصروف میں بھی کم تھا فراغت اسے بھی تھی مجھ سے بچھڑ …

اتنی مدت بعد ملے ہو (محسن نقوی)

اتنی مدت بعد ملے ہو کن سوچوں میں گم پھرتے ہو اتنے خائف کیوں رہتے ہو ہر آہٹ سے ڈر جاتے ہو تیز ہوا نے مجھ سے پوچھا ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو کاش کوئی ہم سے بھی پوچھے رات گئے تک کیوں جاگتے ہو میں دریا سے بھی ڈرتا ہوں تم دریا سے …

وہ بات بات میں اتنا بدلتا جاتا ہے (نوشی گیلانی)

وہ بات بات میں اتنا بدلتا جاتا ہے کہ جس طرح کوئی لہجہ بدلتا جاتا ہے یہ آرزو تھی کہ ہم اس کے ساتھ ساتھ چلتے مگر وہ شخص تو راستہ بدلتا جاتا ہے رُتیں وصال کی اب خواب ہونے والی ہیں کہ اس کی بات کا لہجہ بدلتا جاتا ہے رہا جو دھوپ میں …