Category «شاعری»

خیال و خواب ہوا برگ و بار کا موسم (پروین شاکر)

  خیال و خواب ہوا برگ و بار کا موسم بچھڑ گیا تری صورت ، بہار کا موسم   کئی رتوں سے مرے نیم وا دریچوں میں ٹھہر گیا ترے انتظار کا موسم   وہ نرم لہجے میں کچھ  تو کہے  کہ لوٹ آئے سماعتوں کی زمیں پر پھوار کا موسم   پیام آیا ہے …

دعا کا ٹوٹا ہوا حرف سرد آہ میں ہے (پروین شاکر)

  دعا کا ٹوٹا ہوا حرف سرد آہ میں ہے تری جدائی کا منظر ابھی نگاہ میں ہے   ترے بدلنے کے باوصف تجھ کو چاہا ہے یہ اعتراف بھی شامل مرے گناہ میں ہے   عذاب دے گا تو پھر مجھ کو خواب بھی دے گا میں مطمئن ہوں مرا دل تری پناہ میں …

گئے برس کی عید کا دن کیا اچھا تھا (پروین شاکر)

  گئے برس کی عید کا دن کیا اچھا تھا چاند کو دیکھ کے اس کا چہرہ دیکھا تھا!   فضا میں کیٹس کے لہجے کی نرماہٹ تھی موسم اپنے رنگ میں فیض کا مصرعہ تھا   دعا کے بے آواز الوہی لمحوں میں وہ لمحہ بھی کتنا دلکش لمحہ تھا   ہاتھ اٹھا کر …

بہت گھٹن ہے کوئی صورتِ بیاں نکلے (ساحر لدھیانوی)

بہت گھٹن ہے کوئی صورتِ بیاں نکلے اگر صدا نہ اُٹھے کم سے کم فغاں نکلے فقیرِ شہر کے تن پر لباس باقی ہے امیرِ شہر  کے ارماں ابھی کہاں نکلے حقیقتیں ہیں سلامت تو خواب بہتیرے ملال کیا ہے کہ کچھ خواب رائیگاں نکلے اِدھر بھی خاک اُڑی اُدھر بھی خاک اُڑی جدھر جدھر سے …

بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا (منیر نیازی)

بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لبِ لعلیں کی اک باغ سا ساتھ اپنے مہکائے ہوئے رہنا اس حسن کا شیوہ ہے  جب عشق نظر آئے پردے میں چلے جانا شرمائے ہوہئے رہنا اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے …

کبھی چمکتے ہوئے چاند کی طرح روشن (منیر نیازی)

گلِ صد رنگ کبھی چمکتے ہوئے چاند کی طرح روشن کبھی طویل شبِ ہجر کی طرح غمگیں شعاعِ لعل و حنا کی طرح مہکتی ہوئیں کبھی سیاہئی کوہِ ندا میں پردہ نشیں سنبھل کے دیکھ طلسمات اُن نگاہوں کا دلِ تباہ کی رنگین پناہوں کا

شام کے پیچ و خم ستاروں سے (فیض احمد فیض)

زنداں کی ایک شام شام کے پیچ و خم ستاروں سے زینہ زینہ اتر رہی ہے رات یوں صبا پاس سے گزرتی ہے جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات صحنِ زنداں کے بے وطن اشجار سرنگوں محو ہیں بنانے میں دامنِ آسماں پہ نقش و نگار !شانئہ بام پر دمکتا ہے مہرباں چاندنی کا دستِ …

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے (فیض احمد فیض)

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے ہاں نکتہ ورو لاؤ لب و دل کی گواہی ہاں نغمہ گرو سازِ صدا کیوں نہیں دیتے مِٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے پیمانِ جنوں ہاتھوں کو شرمائے کب …