Monthly archives: February, 2019

اُس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا (میر تقی میر)

اُس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا اے کبک پھر بہ حال بھی آیا نہ جائے گا ہم رہروانِ راہِ فنا ہیں بہ رنگِ عمر جاویں گے ایسے، کھوج بھی پایا نہ جائے گا پھوڑا سا ساری رات جو پکتا رہے گا دل تو صبح تک تو ہاتھ لگایا نہ جائے گا اب …

پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے (میر تقی میر)

پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے لگنے نہ دے بس ہو تو اس کے گوہر گوش کا بالے تک اس کو فلک چشمِ مہ و خور کی پتلی کا تارا جانے ہے چارہ گری بیمارئ دل کی رسمِ شہرِ حسن نہیں …

دل میں اور تو کیا رکھا ہے (ناصر کاظمی)

دل میں اور تو کیا رکھا ہے تیرا درد چھپا رکھا ہے اتنے دکھوں کی تیز ہوا میں دل کا دیپ جلا رکھا ہے دھوپ سے چہروں نے دُنیا میں کیا اندھیر مچا رکھا ہے اس نگری کے کچھ لوگوں نے دکھ کا نام دوا رکھا ہے وعدۃ یار کی بات نہ چھیڑ یہ دھوکا …

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا(ناصر کاظمی)

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا وہ تِری یاد تھی اب یاد آیا آج مشکل تھا سنبھلنا  اے دوست تو مصیبت میں عجب یاد آیا تیرا بھولا ہوا پیمانِ وفا مر رہیں گے اگر اب یاد آیا حالِ دل ہم بھی سناتے لیکن جب وہ رخصت ہوا تب یاد آیا بیٹھ کر سایئہ گل میں …

اپنی دھن میں رہتا ہوں (ناصر کاظمی)

اپنی دھن میں رہتا ہوں میں بھی تیرے جیسا ہوں او پچھلی رُت کے ساتھی اب کے برس میں تنہا ہوں تیری گلی میں سارا دن دُکھ کے کنکر چُنتا ہوں مجھ سے آنکھ ملائے کون میں تیرا آئینہ ہوں میرا دیا جلائے کون میں تِرا خالی کمرہ ہوں تیرے سوا مجھے پہنے کون میں …

گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ (ناصر کاظمی)

گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران  کر گیا وہ کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی بدل چلا  دورِ آسماں بھی جو رات بھاری تھی ٹل گئی ہے جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ    شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں …

عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا (ناصر کاظمی)

عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا حسن خود محوِ تماشا ہوگا دائم آباد رہے گی دنیا ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا ہم تجھے بھول کے خوش بیٹھے ہیں ہم سا بے درد کوئی کیا ہوگا پھر سلگنے لگا صحرائے خیال ابر گھِر کر کہیں برسا ہو گا شام سے سوچ رہا ہوں …

ہوا کو لکھنا جو آگیا ہے (نوشی گیلانی)

ہوا کو لکھنا جو آگیا ہے اب اس کی مرضی کہ وہ خزاں کو بہار لکھ دے بہار کو انتظار لکھ دے سفر کی خواہشوں کو واہموں کے عذاب سے ہم کنار لکھ دے ہوا کو لکھنا جو آگیا ہے ہوا کی مرضی کہ وصل موسم میں ہجر کو حصہ دار لکھ دے محبتوں میں …

میں اک موج ہوں (باقی احمد پوری)

موج میں اک موج ہوں اور اپنے ہی دریائے حسرت مکاں میں اِدھر سے اُدھر ایک بے نام ساحل کی جانب ازل سے رواں ہوں نہ جانے کہاں ہوں میں اک موج ہوں سرکش و نا شکیبا شبِ ماہ میں اور وحشت بڑھے گی درندوں کی مانند ہر شے سے بھڑ کر کئی زخم کھا …