Monthly archives: February, 2019

سرِ شام  میرے دریچے پہ جھک کر (ثمینہ راجہ)

رفیق سرِ شام  میرے دریچے پہ جھک کر گلِ زرد کی بیل نے یہ کہا استعارہ ہوں میں منتظر آنکھ کا جب ہوا سرسرائی تو مدت سے افسردہ پردوں نے انگڑائی لی اور چاروں طرف ایک بے نام دکھ کی مہک رچ گئی کارنس پر رکھی ایک دوشیزہ تصویر کے گال پر منجمد اشک بولا …

دروازہ کھلا رکھنا (ابنِ انشا)

دل درد کی شدت سے خُوں گشتہ و سی پارہ اِس شہر میں پھرتا ہے  اِک وحشی و آوارہ شاعر ہے کہ عاشق ہے جوگی ہے کہ بنجارہ دروازہ کھلا رکھنا   سینے سے گھٹا اُٹھے آنکھوں سے جھڑی برسے پھاگن کا نہیں بادل جو چار گھڑی برسے برکھا ہے یہ بھادوں کی برسے تو …

پاگل پن (سلیم الرحمٰن )

کون مجھے یہ سمجھائے گا خوشبو کے پیچھے مت بھاگو اس کی منزل کوئی نہیں ہے رنگوں کی دہلیز سے آگے کچھ بھی نہیں ہے   اندھیارے کی ساری راہیں بھیدوں کے جنگل کی جانب جاتی ہیں دور ہی دور سے انجان آوازیں مجھ کو اپنے پاس بلاتی ہیں   خوشبو کے پیچھے ہی پیچھے …

دل دکھتا ہے (محسن نقوی)

دل دکھتا ہے آباد گھروں سے دور کہیں جب بنجر بن میں آگ جلے دل دکھتا ہے پردیس کی بوجھل راہوں میں جب شام ڈھلے دل دکھتا ہے جب رات کا قاتل سناٹا پُر ہول ہوا کے وہم لیے قدموں کی چاپ کے ساتھ چلے دل دکھتا ہے

اِک بار کہو تم میری ہو (ابنِ انشا)

ہم گھوم چکے بستی بن میں اِک آس کی پھانس لئے من میں کوئی ساجن ہو کوئی پیارا ہو کوئی دیپک ہو کوئی تارا ہو جب جیون رات اندھیری ہو اِک بار کہو تم میری ہو               جب ساون بادل چھائے ہوں جب پھاگن پھول کھِلائے ہوں جب چندا رُوپ لٹاتا ہو جب سورج …

ہستی اپنی حباب کی سی ہے (میر تقی میر)

ہستی اپنی حباب کی سی ہے یہ نمائش سراب کی سی ہے نازکی اُس کے لب کی کیا کہیے پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے بارہا اس کے در پہ جاتا ہوں حالت اب اضطراب کی سی ہے میں جو بولا ، کہا کہ یہ آواز اُسی خانہ خراب کی سی ہے میر اُن نیم …

دیکھ تو دِل کہ جاں سے اٹھتا ہے (میر تقی میر)

دیکھ تو دِل کہ جاں سے اٹھتا ہے یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے گور کِس دِل جلے کی ہے یہ فلک شعلہ اِک صبح یاں سے اٹھتا ہے خانئہ دِل سے زینہار نہ جا کوئی ایسے مکاں سے اٹھتا ہے بیٹھنے کون دے ہے پھِر اُس کو جو تِرے آستاں سے اٹھتا ہے …

مجھے دل کی خطا پر یاس شرمانہ نہیں آتا (یاس یگانہ چنگیزی)

مجھے دل کی خطا پر یاس شرمانہ نہیں آتا پرایا جرم اپنے نام لکھوانا نہیں آتا برا ہو پائے سرکش کا کہ تھک جانا نہیں آتا کبھی گمراہ ہو کر راہ پر آنا نہیں آتا مجھے اے نا خدا آخر کسی کو منہ دکھانا ہے بہانہ کر کے پار اتر جانا نہیں آتا مصیبت کا …

خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا (یاس یگانہ چنگیزی)

خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا خدا بنے تھے یگانہ بنا نہ گیا گناہِ زندہ دلی کہیے یا دل آزاری کسی پہ ہنس لیے اتنا کہ پھر ہنسا نہ گیا سمجھتے کیا تھے مگر سنتے تھے ترانئہ درد سمجھ میں آنے لگا جب تو پھر سنا نہ گیا بتوں کو دیکھ کے …

دل میں کسی کی راہ کیے جا رہا ہوں میں (جگر مراد آبادی)

دل میں کسی کی راہ کیے جا رہا ہوں میں کتنا حسیں گناہ کیے جا رہا ہوں میں مجھ سے لگے ہیں عشق کی عظمت کو چار چاند خود حسن کو گواہ کیے جا رہا ہوں میں گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز کانٹوں سے بھی نبھاہ کیے جا رہا ہوں میں آگے …