Monthly archives: June, 2019

اٹھے تِری محفل سے تو کس کام سے اٹھے (بیخود دہلوی)

اٹھے تِری محفل سے تو کس کام سے اٹھے دل تھام کے بیٹھے تھے جگر تھام کے اٹھے   دم بھر مِرے پہلو میں انہیں چین کہاں ہے بیٹھے کہ بہانے سے کسی کام سے اٹھے   دنیا میں کسی نے بھی نہ دیکھی یہ نزاکت اُن سے نہ کبھی حرف مِرے نام کے اٹھے …

جلوہ آنکھوں پہ چھا گیا کس کا؟ (اختر شیرانی)

جلوہ آنکھوں پہ چھا گیا کس کا؟ شوق، دل میں سما گیا کس کا   صورت آنکھوں میں کھب گئی کس کی؟ نقش دل کو لبھا گیا کس کا؟   پھر کٹی ساری رات آنکھوں میں جلوہ پھر یاد آ گیا کس کا؟   میرے دل سے بھلا گیا سب کچھ یہ خیال ، آہ …

شاموں کی بڑھتی تیرگی میں (منیر نیازی)

گوہرِ مراد   شاموں کی بڑھتی تیرگی میں برکھا کے سوکھے جنگل میں کبھی چاند کی مٹتی روشنی میں رنگوں کی بہتی نہروں میں ان اُونچی اُونچی کھڑکیوں والے اُجڑے اُجڑے شہروں میں کِن جانے والے لوگوں کی یادوں کے دیے جلاتے ہو؟ کِن بھولی بسری شکلوں کو گلیوں میں ڈھونڈنے جاتے ہو؟

کمرے میں خاموشی ہے (منیر نیازی)

میں  وہ اور رات   کمرے میں خاموشی ہے اور باہر رات بہت کالی ہے اُونچے اُونچے پیڑوں پر سیاہی نے چھاؤنی ڈالی ہے تیز ہوا کہتی ہے پَل میں برکھا آنی والی ہے   وہ سولہ سنگھار کئے اپنی ہی سوچ میں کھوئی ہوئی ہے سانسوں میں وہ گہرا پن ہے جیسے بے سدھ …

گریزِ شب سے سحر سے کلام رکھتے تھے (نوشی گیلانی)

گریزِ شب سے سحر سے کلام رکھتے تھے کبھی وہ دن تھے کہ زلفوں میں شام رکھتے تھے   تمہارے ہاتھ لگے ہیں تو جو کرو سو کرو وگرنہ تم سے تو ہم سو غلام رکھتے تھے   ہمیں بھی گھیر لیا گھر کے زعم نے تو کھلا کچھ اور لوگ بھی اس میں قیام …

مجھ کو بھی ترکیب سکھا کوئی یار جولاہے (گلزار)

  مجھ کو بھی ترکیب سکھا کوئی یار جولاہے اکثر تجھ کو دیکھا ہے کہ تانا بنتے جب کوئی تاگا ٹوٹ گیا یا ختم ہوا پھر سے باندھ کے اور سرا کوئی جوڑ کے اس میں آگے بننے لگتے ہو تیرے اس تانے میں لیکن اک بھی گانٹھ گرہ بنتر کی دیکھ نہیں سکتا ہے …

وقت کی آنکھ پہ پٹی باندھ کے کھیل رہے تھے آنکھ مچولی (گلزار)

وقت کی آنکھ پہ پٹی باندھ کے کھیل رہے تھے آنکھ مچولی رات اور دن اور چاند اور میں جانے کیسے کائنات میں اٹکا پاؤں دور گرا جا کر میں جیسے! روشنی سے دھکا کھا کے پرچھائیں زمیں پر گرتی ہے دھیا چھونے سے پہلے ہی وقت نے چور کہا اور آنکھیں کھول کے مجھ …

نظم الجھی ہوئی ہے سینے میں (گلزار)

  نظم الجھی ہوئی ہے سینے میں مصرعے اٹکے ہوئے ہیں ہونٹوں پر لفظ کاغذ پہ بیٹھتے ہی نہیں اڑتے پھرتے ہیں تتلیوں کی طرح کب سے بیٹھا ہوا ہوں میں جانم سادہ کاغذ پہ لکھ کے نام ترا بس ترا نام ہی مکمل ہے اس سے بہتر بھی نظم کیا ہو گی!

تراش کر مرے بازو اڑان چھوڑ گیا (پروین شاکر)

  تراش کر مرے بازو اڑان چھوڑ گیا ہوا کے پاس برہنہ کمان چھوڑ گیا   رفاقتوں کا مری اس کو دھیان کتنا تھا زمین لے لی مگر آسمان چھوڑ گیا   عجیب شخص تھا بارش کا رنگ دیکھ کے بھی کھلے دریچے پہ ایک پھول دان چھوڑ گیا   جو بادلوں سے بھی مجھ …

ہتھیلیوں کی دعا پھول لے کے آئی ہو (پروین شاکر)

  ہتھیلیوں کی دعا پھول لے کے آئی ہو کبھی تو رنگ مرے ہاتھ کا حنائی ہو!   کوئی تو ہو جو مرے تن کو روشنی بھیجے کسی کا پیار ہوا میرے نام لائی ہو!   گلابی پاؤں مرے چمپئی بنانے کو کسی نےصحن میں مہندی کی باڑھ اگائی ہو   کبھی تو ہو مرے …