Monthly archives: January, 2020

کوئی پھول دھوپ کی پتیوں میں ہرے ربن سے بندھا ہوا (بشیر بدر)

کوئی پھول دھوپ کی پتیوں میں ہرے ربن سے بندھا ہوا وہ غزل کا لہجہ نیا نیا نہ کہا ہوا نہ سنا ہوا جسے لے گئی ہے ابھی ہوا وہ ورق تھا دل کی کتاب کا کہیں آنسوؤں سے مٹا ہوا کہیں آنسوؤں سے لکھا ہوا کئی میل ریت کو کاٹ کر کوئی موج پھول …

بے وفا با وفا نہیں ہوتا (بشیر بدر)

بے وفا با وفا نہیں ہوتا ختم یہ فاصلہ نہیں ہوتا کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا گفتگو ان سے روز ہوتی ہے  مدتوں سامنا نہیں ہوتا جی بہت چاہتا ہے سچ بولیں کیا کریں حوصلہ نہیں ہوتا رات کا انتظار کون کرے آج کل دن میں کیا نہیں …

کبھی یوں بھی آ مری آنکھ میں (بشیر بدر)

کبھی یوں بھی آ مری آنکھ میں کہ مری نظر کو خبر نہ ہو مجھے ایک رات نواز دے مگر اس کے بعد سحر نہ ہو وہ بڑا رحیم و کریم ہے مجھے یہ صفت بھی عطا کرے تجھے بھولنے کی دعا کروں تو مری دعا میں اثر نہ ہو مرے بازوؤں میں تھکی تھکی …

ریت بھری ہے ان آنکھوں میں تم اشکوں سے دھو لینا (بشیر بدر)

ریت بھری ہے ان آنکھوں میں تم اشکوں سے دھو لینا کوئی سوکھا پیڑ ملے تو اس سے لپٹ کر رو لینا اس کے بعد بھی تم تنہا ہو، جیسے جنگل کا رستہ جو بھی تم سے پیار سے بولے ساتھ اس کے ہو لینا کچھ تو ریت کی پیاس بجھاؤ جنم جنم کی پیاسی …

پتھر کے جگر والو غم میں وہ روانی ہے (بشیر بدر)

پتھر کے جگر والو غم میں وہ روانی ہے خود راہ بنا لے گا بہتا ہوا پانی ہے پھولوں میں غزل رکھنا یہ رات کی رانی ہے اس میں تری زلفوں کی بے ربط کہانی ہے اک ذہنِ پریشاں میں وہ پھول سا چہرہ ہے پتھر کی حفاظت میں شیشے کی جوانی ہے کیوں چاندنی …

روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے (راحت اندوری)

روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے ایک دیوانہ مسافر ہے میری آنکھوں میں وقت بے وقت ٹھہر جاتا ہے، چل پڑتا ہے اپنی تعبیر کے چکر میں میرا جاگتا خواب روز سورج کی طرح گھر سے نکل پڑتا ہے روز پتھر کی حمایت میں غزل …

جا کے یہ کہہ دے کوئی شعلوں سے چنگاری سے (راحت اندوری)

جا کے یہ کہہ دے کوئی شعلوں سے چنگاری سے پھول اس بار کھلے ہیں بڑی تیاری سے اپنی ہر سانس کو نیلام کیا ہے میں نے لوگ آسان ہوئے ہیں بڑی دشواری سے ذہن میں جب بھی ترے خط کی عبارت چمکی ایک خوشبو سی نکلنے لگی الماری سے شاہزادے سے ملاقات تو ناممکن …

رات کی دھڑکن جب تک جاری رہتی ہے (راحت اندوری)

رات کی دھڑکن جب تک جاری رہتی ہے سوتے نہیں ہم ذمہ داری رہتی ہے جب سے تو نے ہلکی ہلکی باتیں کیں یار طبیعت بھاری بھاری رہتی ہے پاؤں کمر تک دھنس جاتے ہیں دھرتی میں ہاتھ پسارے جب خودادری رہتی ہے وہ منزل پر اکثر دیر سے پہنچتے ہیں جن لوگوں کے پاس …

جب کبھی پھولوں نے خوشبو کی تجارت کی ہے (راحت اندوری)

جب کبھی پھولوں نے خوشبو کی تجارت کی ہے پتی پتی نے ہواؤں سے شکایت کی ہے یوں لگا جیسے کوئی عطر فضا میں گھل جائے جب کسی بچے نے قرآں کی تلاوت کی ہے جانمازوں کی طرح نور میں اجلائی سحر رات بھر جیسے فرشتوں نے عبادت کی ہے سر اٹھائے تھیں بہت سرخ …

فیصلے لمحات کے نسلوں پہ بھاری ہو گئے (راحت اندوری)

فیصلے لمحات کے نسلوں پہ بھاری ہو گئے باپ حاکم تھا مگر بیٹے بھکاری ہو گئے دیویاں پہنچی تھیں اپنے بال بکھرائے ہوئے دیوتا مندر سے نکلے اور پجاری ہو گئے روشنی کی جنگ میں تاریکیاں پیدا ہوئیں چاند پاگل ہو گیا تارے بھکاری ہو گئے رکھ دیئے جائیں گے نیزے لفظ اور ہونٹوں کے …