Monthly archives: January, 2020

مدتوں ہم نے غم سنبھالے ہیں (قابل اجمیری)

مدتوں ہم نے غم سنبھالے ہیں اب تری یاد کے حوالے ہیں زندگی کے حسین چہرے پر غم نے کتنے حجاب ڈالے ہیں کچھ غمِ زیست کا شکار ہوئے کچھ مسیحا نے مار ڈالے ہیں راہ گزارِ حیات میں ہم نے خود نئے راستے نکالے ہیں اے شب ِ غم ذرا سنبھال کے رکھ ہم …

اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبرہوتی نہیں (قابل اجمیری)

اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبر ہوتی نہیں اشک بہہ جاتے ہیں لیکن آنکھ تر ہوتی نہیں پھر کوئی کم بخت کشتی نذرِ طوفاں ہو گئی ورنہ ساحل پر اداسی اس قدر ہوتی نہیں تیرا اندازِ تغافل ہے جنوں میں آج کل چاک کر لیتا ہوں دامن اور خبر ہوتی نہیں ہائے …

عام فیضانِ غم نہیں ہوتا (قابل اجمیری)

عام فیضانِ غم نہیں ہوتا ہر نفس محترم نہیں ہوتا یا محبت میں غم نہیں ہوتا یا مرا شوق کم نہیں ہوتا نامرادی نے کر دیا خودادر اب سرِ شوق ختم نہیں ہوتا شوق ہی بدگمان ہوتا ہے اُس طرف سے ستم کم نہیں ہوتا راستہ ہے کہ کٹتا جاتا ہے فاصلہ ہے کہ کم …

سوزِ حیات مانگ، غمِ جاودانہ مانگ (قابل اجمیری)

سوزِ حیات مانگ، غمِ جاودانہ مانگ اس جانِ مدعا سے مگر مدعا نہ مانگ آوازِ بازگشت بھی مشکل سے آئے گی غربت کو شرمسار نہ کر ہمنوا نہ مانگ خونِ جگر سے نقشِ تمنا بنائے جا اب زندگی سے فرصتِ ترکِ وفا نہ مانگ مے خانہ اک سراب، صنم خانہ اک طلسم کچھ ان سے …

جنونِ بے سروساماں کی بات کون کرے (قابل اجمیری)

جنونِ بے سروساماں کی بات کون کرے خزاں نہ ہو تو بیاباں کی بات کون کرے گلاب و نرگس و ریحاں کی بات کون کرے جو تم ملو تو گلستاں کی بات کون کرے مرے جنوں کا تماشہ تو سب نے دیکھ لیا تری نگاہِ پشیماں کی بات کون کرے ہمیں تو رونقِ زنداں بنا …

سکوں بھی خواب ہوا نیند بھی ہے کم کم پھر (پروین شاکر)

سکوں بھی خواب ہوا نیند بھی ہے کم کم پھر قریب آنے لگا ہے دوریوں کا موسم پھر بنا رہی ہے تری یاد مجھ کو سلک گُہر پرو گئی مری پلکوں میں  آج شبنم پھر وہ نرم لہجے میں کچھ کہہ رہا ہے پھر مجھ سے چھڑا ہے پیار کے کومل سروں میں مدھم پھر …

خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں (گلزار)

خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں ایک پرانا خط کھولا انجانے میں شام کے سائے بالشتوں سے ناپے ہیں چاند نے کتنی دیر لگا دی آنے میں رات گزرتے شاید تھوڑا وقت لگے دھوپ انڈیلو تھوڑی سی پیمانے میں جانے کس کا ذکر ہے اس افسانے میں درد مزے لیتا ہے جو دہرانے میں دل …

یہ جگہ اہلِ جنوں اب نہیں رہنے والی (شہریار)

یہ جگہ اہلِ جنوں اب نہیں رہنے والی فرصتِ عش میسر کہاں پہلے والی کوئی دریا ہو کہیں جو مجھے سیراب کرے ایک حسرت ہے جو پوری نہیں ہونے والی وقت کوشش کرے میں چاہوں مگر یاد تری دھندلی ہو سکتی ہے دل سے نہیں مٹنے والی اب مرے خوابوں کی باری ہے یہی لگتا …

کس کس طرح سے مجھ کو نہ رسوا کیا گیا (شہریار)

کس کس طرح سے مجھ کو نہ رسوا کیا گیا غیروں کا نام میرے لہو سے لکھا گیا نکلا تھا میں صدائے جرس کی تلاش میں دھوکے سے اس سکوت کے صحرا میں آ گیا کیوں آج اس کا ذکر مجھے خوش نہ کر سکا کیوں آج اس کا نام مرا دل دکھا گیا میں …

یہ قافلے یادوں کے کہیں کھو گئے ہوتے (شہریار)

یہ قافلے یادوں کے کہیں کھو گئے ہوتے اک پل بھی اگر بھول کے ہم سو گئے ہوتے اے شہر ترا نام و نشاں بھی نہیں ہوتا جو حادثے ہونے تھے اگر ہو گئے ہوتے ہر بار پلٹے ہوئے گھر کو یہی سوچا اے کاش کسی لمبے سفر کو گئے ہوتے ہم خوش ہیں ہمیں …