Monthly archives: October, 2020

چھیڑنے کا تو مزہ تب ہے کہو اور سنو (انشا اللہ خاں انشا)

چھیڑنے کا تو مزہ تب ہے کہو اور سنو بات میں تم تو خفا ہو گئے لو اور سنو                                                                                                                                                                                               تم کہو گے جسے کچھ کیوں نہ کہے گا تم کو چھوڑ دیوے گا بھلا دیکھ تو لو اور سنو یہی انصاف ہے ، کچھ سوچو تو دل میں اپنے تم تو کہہ سن لو …

کیوں نہ آوے ساقی نظر آفتاب الٹا (انشااللہ خاں انشا)

کیوں نہ آوے ساقی نظر آفتاب الٹا کہ پڑا ہے آج خُم میں قدحِ شراب الٹا عجب الٹے ملک کے ہیں اجی آپ بھی کہ تم سے کبھی بات کی جو سیدھی تو ملا جواب الٹا چلے تھے حرم کو رہ میں ہوئے اِک صنم پہ عاشق نہ ہو اثواب حاصل ، یہ ملا عذاب …

جھڑکی سہی ، ادا سہی ، چینِ جبیں سہی (انشا اللہ خاں انشا)

جھڑکی سہی ، ادا سہی ، چینِ جبیں سہی یہ سب سہی پر ایک نہیں کی نہیں سہی مرنا مِرا جو چاہے تو لگ جا گلے سے ٹُک اب کوئی دم یہ میرا دمِ واپسیں سہی آگے بڑھے جو جاتے ہو کیوں کون ہے یہاں جو بات ہم کو کہنی ہے تم سے نہیں سہی …

پھر کوئی نیا زخم نیا درد عطا ہو (اطہر نفیس)

پھر کوئی نیا زخم نیا درد عطا ہو اس دل کی خبر لے جو تجھے بھول چلا ہو اب دل میں سرِ شام چراغاں نہیں ہوتا شعلہ ترے غم کا کہیں بجھنے نہ لگا ہو کب عشق کیا کس سے کیا جھوٹ ہے یارو بس بھول بھی جاؤ جو کبھی ہم سے سنا ہو اب …

سکوتِ شب سے اک نغمہ سنا ہے (اطہر نفیس)

سکوتِ شب سے اک نغمہ سنا ہے وہی کانوں میں اب تک گونجتا ہے غنیمت ہے کہ اپنے غمزدوں کو وہ حسنِ خود نگر پہچانتا ہے بہت چھوٹے ہیں مجھ سے میرے دشمن جو میرا دوست ہے مجھ سے بڑا ہے مجھے ہر آن کچھ بننا پڑے گا مری ہر سانس مری ابتدا ہے

دم بدم بڑھ رہی ہے یہ کیسی صدا شہر والو سنو (اطہر نفیس)

دم بدم بڑھ رہی ہے یہ کیسی صدا شہر والو سنو جیسے آئے دبے پاؤں سیلِ بلا شہر والو سنو خاک اڑاتی نہ تھی اس طرح تو ہوا، شہر والو سنو دیکھو آواز دیتا ہے اک سانحہ شہر والو سنو عمر بھر کا سفر جس کا حاصل ہے اک لمحئہ مختصر کس نے کیا کھو …

اطہر تم نے بھی عشق کیا کچھ تو بتاؤ کیا حال ہوا (اطہر نفیس)

اطہر تم نے بھی عشق کیا کچھ تو بتاؤ کیا حال ہوا کوئی نیا احساس ملا یا سب جیسا احوال ہوا راہِ وفا میں جاں دینا ہی پیشروؤں کا شیوہ تھا ہم نے جب سے جینا سیکھا جینا کارِ مثال ہوا عشق فسانہ تھا جب تک اپنے بھی بہت افسانے تھے عشق صداقت ہوتے ہوتے …

وہ آنکھ اٹھا کے ذرا بھی جدھر کو دیکھتے ہیں (آرزو لکھنوی)

وہ آنکھ اٹھا کے ذرا بھی جدھر کو دیکھتے ہیں تو کیا ہی یاس سے ہم اُس نظر کو دیکھتے ہیں جو یہ حال ہے تو جائیں گے وہاں ہم آپ اک آدھ روز تو دردِ جگر کو دیکھتے ہیں یہ کہتے ہو اگر آنا ہوا تو آئیں گے ہم بھلا ہم آج تمہاری اگر …

ہجر کی دھوپ میں چھاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں (افتخار عارف)

ہجر کی دھوپ میں چھاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں آنسو بھی تو ماؤں جیسی باتیں کرتے ہیں رستہ دیکھنے والی آنکھوں کے انہونے خواب پیاس میں بھی دریاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں خود کو بکھرتے دیکھتے ہیں کچھ کر نہیں پاتے ہیں پھر بی لوگ خداؤں جیسی باتیں کرتے ہیں ایک ذرا سی جوت کے …

نگاہِ ناز نے پردے اٹھائے ہیں کیا کیا (فراق گورکھپوری)

نگاہِ ناز نے پردے اٹھائے ہیں کیا کیا حجاب اہلِ محبت کو آئے ہیں کیا کیا جہاں میں تھی بس اک افواہ تیرے جلووں کی چراغِ دیر و حرم جھلملائے ہیں کیا کیا دو چار برقِ تجلی سے رہنے والوں نے فریب نرم نگاہی کے کھائے ہیں کیا کیا بقدرِ ذوقِ نظر دیدِ حسن کیا …