طلسم زار شب ماہ میں گزر جائے (اعتبار ساجد)
طلسم زار شب ماہ میں گزر جائے اب اتنی رات گئے کون اپنے گھر جائے عجب نشہ ہے ترے قرب میں کہ جی چاہے یہ زندگی تری آغوش میں گزر جائے میں تیرے جسم میں کچھ اس طرح سما جاؤں کہ تیرا لمس مری روح میں اتر جائے مثال برگ خزاں ہے ہوا کی زد …