Monthly archives: February, 2021

تیری باتیں ہی سنانے آئے (احمد فراز)

تیری باتیں ہی سنانے آئے دوست بھی دل ہی دکھانے آئے پھول کھلتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں تیرے آنے کے زمانے آئے ایسی کچھ چپ سی لگی ہے جیسے ہم تجھے حال سنانے آئے عشق تنہا ہے سر منزل غم کون یہ بوجھ اٹھانے آئے اجنبی دوست ہمیں دیکھ کہ ہم کچھ تجھے یاد …

سنو لڑکی (سیدہ فاطمہ جبیں)

سنو لڑکی ابھی تم بہت چھوٹی ہو تمہاری عمر ہی کیا ہے ابھی تم بہت معصوم ہو میری اک بات مانو تم ابھی تم عشق مت کرنا نہیں معلوم تم کو کہ عشق کا روگ کیسا ہے جب کسی سے عشق ہوتا ہے تو کتنا درد ہوتا ہے ستارے ٹوٹ جاتے ہیں سہارے چھوٹ جاتے …

ایک عرصہ ہو گیا ہے (سیدہ فاطمہ جبیں)

ایک عرصہ ایک عرصہ ہو گیا ہے بہت گم سم سے رہتے ہو کوئی گہرا غم ہے شاید جس کو تنہا سہتے ہو دورانِ گفتگو باتیں بھول جاتے ہو جب کوئی تمہارا حال پوچھے تو فقط اتنا ہی کہتے ہو یہ اداسی بے وجہ سی ہے بھلا سچ کیوں نہیں کہتے !!کے کسی کو یاد …

سو بار چمن مہکا، سو بار بہار آئی (صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)

سو بار چمن مہکا، سو بار بہار آئی دنیا کی وہی رونق، دل کی وہی تنہائی اک لحظہ بہے آنسو، اک لحظہ ہنسی آئی سیکھے ہیں نئے دل نے اندازِ شکیبائی جلووں کے تمنائی جلووں کو ترستے ہیں تسکین کو روئیں گے جلووں کے تمنائی دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگام محبت کے آغاز بھی …

شانوں پہ کِس کے اشک بہایا کریں گی آپ (جون ایلیا)

شانوں پہ کِس کے اشک بہایا کریں گی آپ روٹھے گا کون کِس کو منایا کریں گی آپ وہ جارہا صبحِ محبت کا کارواں اب شام کو بھی کہیں نہ جایا کریں گی آپ اب کون خود پرست ستائے گا آپ کو کس بے وفا کے ناز اٹھایا کریں گی آپ پہروں شبِ فراق میں …

کچھ لوگ بھی وہموں میں گرفتار بہت ہیں (محسن نقوی)

کچھ لوگ بھی وہموں میں گرفتار بہت ہیں کچھ شہر کی گلیاں بھی پُراسرار بہت ہیں ہے کون اترتا ہے وہاں جس کے لئے چاند کہنے کو تو چہرے پسِ دیوار بہت ہیں ہونٹوں پہ سلگتے ہوئے انکار پہ مت جا پلکوں سے پرے بھیگتے اقرار بہت ہیں یہ دھوپ کی سازش ہے کہ موسم …

گرے ہیں لفظ ورق پہ لہو لہو ہو کر (افتخار نسیم)

گرے ہیں لفظ ورق پہ لہو لہو ہو کر محاذ زیست سے لوٹا ہوں سرخ رو ہو کر اسی کی دید کو اب رات دن تڑپتے ہیں کہ جس سے بات نہ کی ہم نے دو بدو ہو کر بجھا چراغ ہے دل کا وگرنہ کیسے مجھے نظر نہ آئے گا وہ میرے چار سو …

نہ جانے کب وہ پلٹ آئیں در کھلا رکھنا (افتخار نسیم)

نہ جانے کب وہ پلٹ آئیں در کھلا رکھنا گئے ہوئے کے لیے دل میں کچھ جگہ رکھنا ہزار تلخ ہوں یادیں مگر وہ جب بھی ملے زباں پہ اچھے دنوں کا ہی ذائقہ رکھنا نہ ہو کہ قرب ہی پھر مرگ ربط بن جائے وہ اب ملے تو ذرا اس سے فاصلہ رکھنا اتار …

چاند پھر تاروں کی اجلی ریز گاری دے گیا (افتخار نسیم)

چاند پھر تاروں کی اجلی ریز گاری دے گیا رات کو یہ بھیک کیسی خود بھکاری دے گیا ٹانکتی پھرتی ہیں کرنیں بادلوں کی شال پر وہ ہوا کے ہاتھ میں گوٹا کناری دے گیا کر گیا ہے دل کو ہر اک واہمے سے بے نیاز روح کو لیکن عجب سی بے قراری دے گیا …

ہاتھ ہاتھوں میں نہ دے بات ہی کرتا جائے (افتخار نسیم)

ہاتھ ہاتھوں میں نہ دے بات ہی کرتا جائے ہے بہت لمبا سفر یوں تو نہ ڈرتا جائے جی میں ٹھانی ہے کہ جینا ہے بہرحال مجھے جس کو مرنا ہے وہ چپ چاپ ہی مرتا جائے خود کو مضبوط بنا رکھے پہاڑوں کی طرح ریت کا آدمی اندر سے بکھرتا جائے سرخ پھولوں کا …