Category «اعتبار ساجد»

حروف آگہی تھے بے کس و لاچار کیا کرتے (اعتبار ساجد)

حروف آگہی تھے بے کس و لاچار کیا کرتے کلاشنکوف کے آگے مرے اشعار کیا کرتے جہاں گولی سے حرفِ جسم پر اعراب لگتے ہیں وہاں منطق، دلیلیں، فلسفے، افکار کیا کرتے جنہیں اپنی پرستش سے کبھی فرصت نہیں ملتی ہم ان کے روبرو اپنا بتِ پندار کیا کرتے نصیحت کرنے والوں کو بھی خوش …

چاہتوں کے بے ثمر بے سود خوابوں میں رکھا (اعتبار ساجد)

چاہتوں کے بے ثمر بے سود خوابوں میں رکھا عمر بھر ناحق مجھے تو نے سرابوں میں رکھا کیا ملا تجھ کو میری مٹی جو کی تو نے خراب کیوں مجھے تو نے تمنا کے عذابوں میں رکھا اک ردائے وعدۃ فردا دلکش آڑ میں خواب جنت کے دکھائے اور خرابوں میں رکھا روح کو …

جدا بھی ہونے کا اندوہ سہہ نہیں سکتے (اعتبار ساجد)

جدا بھی ہونے کا اندوہ سہہ نہیں سکتے ہم ایک شہر میں اب خوش بھی رہ نہیں سکتے یہ روز وشب ہیں ہمارے کہ ایک دوسرے سے چھپائے پھرتے ہیں احوال، کہہ نہیں سکتے شکستِ ذات کا اظہار چاہتے بھی نہیں عجیب حال ہے، ہم چپ بھی رہ نہیں سکتے حقیقتوں کی چٹانیں بھی اپنی …

ترکِ وفا تم کیوں کرتے ہو اتنی کیا بے زاری ہے (اعتبار ساجد)

ترکِ وفا تم کیوں کرتے ہو اتنی کیا بے زاری ہے ہم نے کوئی شکایت کی ہے بے شک جان ہماری ہے تم نے خود کو بانٹ دیا ہے کیسے اتنے خانوں میں سچوں سے بھی دعا سلام ہے جھوٹوں سے بھی یاری ہے کیسا ہجر قیامت کا ہے لہو میں شعلے ناچتے ہیں آنکھیں …

ایسا نہیں ہے کہ تیرے بعد اہلِ کرم نہیں ملے (اعتبار ساجد)

ایسا نہیں ہے کہ تیرے بعد اہلِ کرم نہیں ملے تجھ سا نہیں ملا کوئی، لوگ تو کم نہیں ملے ایک تری جدائی کے درد کی بات اور ہے جن کو نہ سہہ سکے یہ دل، ایسے تو غم نہیں ملے تجھ سے بچھڑنے کی کتھا اس کے سوا ہے اور کیا مل نہ سکیں …

اُس نے کہا کہ مجھ سے تمہیں کتنا پیار ہے (اعتبار ساجد)

اُس نے کہا کہ مجھ سے تمہیں کتنا پیار ہے میں نے کہا ستاروں کا کوئی شمار ہے ! اُس نے کہا کہ کون تمہیں ہے بہت عزیز؟ میں نے کہا کہ دل پہ جسے اختیار ہے اُس نے کہا کہ کون سا تحفہ ہے من پسند میں نے کہا وہ شام جو اب تک …

آپس میں بات چیت کی زحمت کیے بغیر (اعتبار ساجد)

آپس میں بات چیت کی زحمت کیے بغیر بس چل رہے ہیں ساتھ شکایت کیے بغیر آنکھوں سے کر رہے ہیں بیاں اپنی کیفیت ہونٹوں سے حالِ دل کی وضاحت کیے بغیر دونوں کو اپنی اپنی انائیں عزیز ہیں لیکن کسی کو نذرِ ملامت کیے بغیر ٹھہرا ہوا ہے وقت مراسم کے درمیاں پیدا خلیج …

تمہیں جب کبھی ملیں فرصتیں، مرے دل سے بوجھ اتار دو (اعتبار ساجد)

تمہیں جب کبھی ملیں فرصتیں، مرے دل سے بوجھ اتار دو میں بہت دنوں سے اداس ہوں مجھے کوئی شام ادھار دو مجھے اپنے روپ کی دھوپ دو کہ چمک سکیں مرے خال و خد مجھے اپنے رنگ میں رنگ دو مرے سارے زنگ اتار دو کسی اور کو مرے حال سے نہ غرض ہے …

کتنی بدل چکی ہے رُت جذبے بھی وہ نہیں رہے (اعتبار ساجد)

کتنی بدل چکی ہے رُت جذبے بھی وہ نہیں رہے دل پہ ترے فراق کے صدمے بھی وہ نہیں رہے محفلِ شب میں گفتگو اب کے ہوئی تو یہ کھلا باتیں بھی وہ نہیں رہیں لہجے بھی وہ نہیں رہے حلئیے بدل کے رکھ دیے جیسے شبِ فراق نے آنکھیں بھی وہ نہیں رہیں چہرے …

اسی طلسمِ شب ماہ میں گزر جائے (اعتبار ساجد)

اسی طلسمِ شب ماہ میں گزر جائے اب اتنی رات گئے کون اپنے گھر جائے عجب نشہ ہے ترے قرب میں کہ جی چاہے یہ زندگی تری آغوش میں گزر جائے میں تیرے جسم میں کچھ اس طرح سما جاؤں کہ تیرا لمس مری روح میں اتر جائے مثالِ برگِ خزاں ہے ہوا کی زد …