Category «جگرمرادآبادی»

محبت میں کیا کیا مقام آرہے ہیں (جگر مراد آبادی)

محبت میں کیا کیا مقام آرہے ہیں کہ منزل پہ ہیں اور چلے جارہے ہیں یہ کہہ کہہ کے ہم دل کو بہلا رہے ہیں وہ اب چل چکے ہیں وہ اب آرہے ہیں وہ از خود ہی نادم ہوئے جارہے ہیں خدا جانے کیا کیا خیال آرہے ہیں ہمارے ہی دل سے مزے ان …

آدمی آدمی سے ملتا ہے (جگر مراد آبادی)

آدمی آدمی سے ملتا ہے دل مگر کم کسی سے ملتا ہے بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے آج کیا بات ہے کہ پھولوں کا رنگ تیری ہنسی سے ملتا ہے سلسلہ فتنۂ …

جو اب بھی نہ تکلیف فرمائیے گا (جگر مراد آبادی)

جو اب بھی نہ  تکلیف فرمائیے گا تو بس ہاتھ ملتے ہی رہ جائیے گا نگاہوں سے چھپ کر کہاں جائیے گا جہاں جائیے گا، ہمیں پائیے گا ہمیں جب نہ ہوں گے تو کیا رنگِ محفل کسے دیکھ کر آپ شرمائیے گا مرا جب برا حال سن پائیے گا خراماں خراماں، چلے آئیے گا …

یہ فلک یہ ماہ و انجم ، یہ زمیں یہ زمانہ (جگر مراد آبادی)

یہ فلک یہ ماہ و انجم ، یہ زمیں یہ زمانہ ترے حسن کی حکایت ، مرے عشق کا فسانہ یہ ہے عشق کی کرامت ، یہ کمالِ شاعرانہ ابھی منہ سے بات نکلی ، ابھی ہو گئی فسانہ یہ علیل سی فضائیں،  یہ مریض سا زمانہ  تری پاک تر جوانی ، ترا حسنِ معجزانہ …

آﺋﮯ ﺯﺑﺎﮞ ﭘﮧ ﺭﺍﺯِ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﺤﺎﻝ ﮨﮯ (جگر مراد آبادی)

آﺋﮯ ﺯﺑﺎﮞ ﭘﮧ ﺭﺍﺯِ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﺤﺎﻝ ﮨﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯﻋﺰﯾﺰ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺧﯿﺎﻝ ﮨﮯ ﻧﺎﺯُﮎ ﺗِﺮﮮ ﻣﺮﯾﺾِ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺣﺎﻝ ﮨﮯ ﺩﻥ ﮐﭧ ﮔﯿﺎ، ﺗﻮ ﺭﺍﺕ ﮐﺎ ﮐﭩﻨﺎ ﻣﺤﺎل ﮨﮯ ﺩﻝ، ﺗﮭﺎ ﺗﺮﮮ ﺧﯿﺎﻝ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﭼﻤﻦ ﭼﻤﻦ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺭﻭﺵ ﺭﻭﺵ ﮨﮯ، ﻣﮕﺮ ﭘﺎﺋﻤﺎﻝ ﮨﮯ ﮐﻢ ﺑﺨﺖ ﺍِﺱ ﺟُﻨﻮﻥِ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭﮞ! ﻣﯿﺮﺍ ﺧﯿﺎﻝ …

جب ہر اک شورشِ غم ضبطِ فغاں تک پہنچے (جگر مراد آبادی)

جب ہر اک شورشِ غم ضبطِ فغاں تک پہنچے پھر خدا جانے یہ ہنگامہ کہاں تک پہنچے کیا تعجب کہ مِری روحِ رواں تک پہنچے پہلے کوئی مِرے نغموں کی زباں تک پہنچے رہِ عرفاں میں اک ایسا بھی مقام آتا ہے ہر یقیں بڑھ کے جہاں وہم و گماں تک پہنچے ان کا جو …

اب اُن کا کیا بھروسہ، وہ آئیں یا نہ آئیں (جگر مراد آبادی)

اب اُن کا کیا بھروسہ، وہ آئیں یا نہ آئیں  آ اے غمِ محبت ! تجھ کو گلے لگائیں بیٹھا ہوں مست و بےخُود، خاموش ہیں فضائیں کانوں میں آ رہی ہیں بُھولی ہوئی صدائیں سب اُن پہ ہیں تصدّق، وہ سامنے تو آئیں اشکوں کی آرزُوئیں، آنکھوں کی اِلتجائیں عُشاق پا رہے ہیں ہر …

یہ مزہ تھا ، نہ خلد میں بھی (جگر مراد آبادی)

یہ مزہ تھا ، نہ خلد میں بھی مجھے قرار ہوتا  جو وہاں بھی آنکھ کھلتی ، یہی انتظار ہوتا میں جنونِ عشق میں یوں ہمہ تن فگار ہوتا کہ مرے لہو سے پیدا اثرِ بہار ہوتا میرے رشکِ بے نہایت کو نہ پوچھ میرے دل سے تجھے تجھ سے بھی چھپاتا، اگر اختیار ہوتا …

نیاز و ناز کے جھگڑے مِٹائے جاتے ہیں (جگر مراد آبادی)

نیاز و ناز کے جھگڑے مِٹائے جاتے ہیں ہم ان میں اور وہ ہم میں سمائے جاتے ہیں یہ نازِ حسن تو دیکھو کہ دل کو تڑپا کر نظر ملاتے نہیں ، مسکرائے جاتے ہیں میں اپنی آہ کے صدقے کہ میری آہ میں بھی تِری نگاہ کے انداز پائے جاتے ہیں رواں دواں لیے …

ممکن نہیں کہ جذبئہ دل کارگر نہ ہو (جگر مراد آبادی)

ممکن نہیں کہ جذبئہ دل کارگر نہ ہو یہ اور بات ہے تمہیں اب تک خبر نہ ہو توہیںِ عشق، دیکھ نہ ہو اے جگر نہ ہو ہو جائے دل کا خوں مگر آنکھ تر نہ ہو لازم خودی کا ہوش بھی ہے بیخودی کے ساتھ کس کی اسے خبر جسے اپنی خبر نہ ہو …