Category «محسن نقوی»

آہٹ سی ہوئی تھی نہ کوئی برگ ہلا تھا (محسن نقوی)

آہٹ سی ہوئی تھی نہ کوئی برگ ہلا تھا  میں خود ہی سر منزل شب چیخ پڑا تھا لمحوں کی فصیلیں بھی مرے گرد کھڑی تھیں  میں پھر بھی تجھے شہر میں آوارہ لگا تھا  تو نے جو پکارا ہے تو بول اٹھا ہوں، ورنہ  میں فکر کی دہلیز پہ چپ چاپ کھڑا تھا  پھیلی …

اشک اپنا کہ تمہارا، نہیں دیکھا جاتا (محسن نقوی)

اشک اپنا کہ تمہارا، نہیں دیکھا جاتا ابر کی زد میں ســتارا، نہیں دیکھا جاتا اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے جب تک زیر خنجر کوئی پیارا نہیں دیکھا جاتا موج در موج الجھنے کی ہوس، بے معنی ڈوبنا ہو ــ تو سہارا نہیں دیکھا جاتا تیرے چہرے کی کشش تھی کہ …

اس نے مکتوب میں لکھا ہے کہ مجبور ہیں ہم (محسن نقوی)

اس نے مکتوب میں لکھا ہے کہ مجبور ہیں ہم اور بانہوں میں کسی اور کی محصور ہیں ہم اس نے لکھا ہے کہ ملنے کی کوئی آس نہ رکھ تیرے خوابوں سے خیالوں سے بہت دور ہیں ہم ایک ساعت بھی شبِ وَصل کی بھولی نہ ہمیں آج بھی تیری ملن رات پہ مجبور …

اپنے آپ سے پھرتے ہیں بیگانے کیوں (محسن نقوی)

اپنے آپ سے پھرتے ہیں بیگانے کیوں شہر میں آ کر لوگ ہوئے دیوانے کیوں ہم نے کب مانی تھی بات زمانے کی آج ہماری بات زمانہ مانے کیوں وہ جنگل کے پھولوں پر کیوں مرتا ہے اس کو اچھے لگتے ہیں ویرانے کیوں سچی بات سے گھبرانے کی عادت کیا جھوٹے لوگوں سے اپنے …

کیا خزانے مِری جاں ہجر کی شب یاد آئے ( محسن نقوی)

کیا خزانے مِری جاں ہجر کی شب یاد آئے تیرا چہرہ، تِری آنکھیں، تِرے لب یاد آئے ایک تُو تھا جسے غُربت میں پُکارا دِل نے ورنہ، بِچھڑے ہُوئے احباب تو سب یاد آئے ہم نے ماضی کی سخاوت پہ جو پَل بھر سوچا دُکھ بھی کیا کیا ہمیں یاروں کے سبَب یاد آئے پُھول …

پیاس بخشی ہے تو پھر اجر بھی کھل کر دینا ( محسن نقوی)

پیاس بخشی ہے تو پھر اجر بھی کھل کر دینا ابر مانگے میری دھرتی تو سمندر دینا اپنی اوقات سے بڑھنا مجھے گم کر دے گا مجھ کو سایہ بھی میرے قد کے برابر دینا یہ سخاوت میرے شجرے میں لکھی ہے پہلے اپنے دشمن کو دعائیں تہِ خنجر دینا دیکھنا ہیں میرے جوہر تو …

یاروں کی خاموشی کا بھرم کھولنا پڑ (محسن نقوی)

یاروں کی خاموشی کا بھرم کھولنا پڑا اتنا سکوت تھا کہ مجھے بولنا پڑا صرف ایک تلخ بات سنانے  سے پیشتر کانوں میں پھول پھول کا رس گھولنا پڑا اپنے خطوں کے لفظ جلانے پڑے مجھے شفاف موتیوں کو کہاں رولنا پڑا؟ خوشبو کی سرد لہر سے جلنے لگے جو زخم پھولوں کو اپنا بندِ …

ہوا اس سے کہنا (محسن نقوی)

ہوا ! صبحدم اُس کی آہستہ آہستہ کھلتی آنکھ سے خواب کی سیپیاں چُننے جائے تو کہنا کہ ہم جاگتے ہیں !   ہوا اُس سے کہنا کہ جو ہجر کی آگ پیتی رُتوں کی طنابیں رگوں سے الجھتی ہوئی سانس کے ساتھ کس دیں انہیں رات کے سرمئی ہاتھ خیرات میں نیند کب دے …

سُنا ہے زمیں پر ۔۔۔۔۔۔ !(محسن نقوی)

سُنا ہے    زمیں پر وہی لوگ ملتے ہیں ۔۔۔۔۔ جن کو کبھی آسمانوں کے اُس پار روحوں کے میلے میں اِک دوسرے کی محبت ملی ہو۔۔۔۔!    مگر تم کہ میرے لیے نفرتوں کے اندھیرے میں ہنستی ہوئی روشنی ہو لہو میں رچی ! رگوں میں بسی ہو !! ہمیشہ سکوتِ شبِ غم میں …

دل دکھتا ہے (محسن نقوی)

دل دکھتا ہے آباد گھروں سے دور کہیں جب بنجر بن میں آگ جلے دل دکھتا ہے پردیس کی بوجھل راہوں میں جب شام ڈھلے دل دکھتا ہے جب رات کا قاتل سناٹا پُر ہول ہوا کے وہم لیے قدموں کی چاپ کے ساتھ چلے دل دکھتا ہے