Category «محسن نقوی»

یا بارشِ سنگ اب کے مسلسل نہ ہوئی تھی (محسن نقوی)

یا بارشِ سنگ اب کے مسلسل نہ ہوئی تھی یا پھر میں ترے شہر کی رہ بھول گیا تھا اک جلوۃ محجوب سے روشن تھا مرا ذہن وجدان یہ کہتا ہے وہی میرا خدا تھا ویران نہ ہو اس درجہ کوئی موسمِ گل بھی کہتے ہیں کسی شاخ پہ اک پھول کھلا تھا اک تو …

چاندنی رات میں اس پیکرِ سیماب کے ساتھ (محسن نقوی)

چاندنی رات میں اس پیکرِ سیماب کے ساتھ میں بھی اڑتا رہا اک لمحہِ بے خواب کے ساتھ کس میں ہمت ہے کہ بدنام ہو سائے کی طرح کون آوارہ پھرے جاگتے مہتاب کے ساتھ آج کچھ زخم نیا لہجہ بدل کر آئے آج کچھ لوگ نئے مل گئے احباب کے ساتھ سینکڑوں ابر اندھیرے …

ہوا اس سے کہنا (محسن نقوی)

ہوا اس سے کہنا !ہوا صُبحدم اس کی آہستہ آہستہ کھلتی ہوئی آنکھ سے خواب کی سیپیاں چننے جائے تو کہنا !کہ ہم جاگتے ہیں ہوا اس سے کہنا کہ جو ہجر کی آگ پِیتی رُتوں کی طنابیں رگوں سے الجھتی ہوئی سانس کے ساتھ کَس دیں انھیں رات کے سرمئی ہاتھ خیرات میں نیند …

دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں (محسن نقوی)

دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں …

سنا ہے زمیں پر۔۔۔۔۔۔! (محسن نقوی)

!سنا ے زمیں پر۔۔۔۔۔ سُنا ہے    زمیں پر وہی لوگ ملتے ہیں ۔۔۔۔۔جن کو کبھی آسمانوں کے اپس پار روحوں کے میلے میں اِک دوسرے کی محبت ملی ہو۔۔۔۔!  مگر تم کہ میرے لیے نفرتوں کے اندھیرے میں ہنستی ہوئی روشنی ہو !لہو میں رچی !!رگوں میں بسی ہو ہمیشہ سکوتِ شبِ غم میں …

ذکرِ شبِ فراق سے وحشت اسے بھی تھی (محسن نقوی)

ذکرِ شبِ فراق سے وحشت اسے بھی تھی میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا راستہ بدل کے چلنے کی عادت اسے بھی تھی اس رات دیر تک وہ رہا محوِ گفتگو مصروف میں بھی کم تھا فراغت اسے بھی تھی مجھ سے بچھڑ …

اتنی مدت بعد ملے ہو (محسن نقوی)

اتنی مدت بعد ملے ہو کن سوچوں میں گم پھرتے ہو اتنے خائف کیوں رہتے ہو ہر آہٹ سے ڈر جاتے ہو تیز ہوا نے مجھ سے پوچھا ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو کاش کوئی ہم سے بھی پوچھے رات گئے تک کیوں جاگتے ہو میں دریا سے بھی ڈرتا ہوں تم دریا سے …

آج بھی شام اداس رہی (محسن نقوی)

آج بھی شام اداس رہی آج بھی شام اداس رہی آج بھی تپتی دھوپ کا سحرا ترے نرم لبوں کے شبنم سائے سے محروم رہا آج بھی پتھر ہجر کا لمحہ صدیوں سے بے خواب رتوں کی آنکھوں کا مفہوم رہا آج بھی اپنے وصل کا تارا راکھ اڑاتی شوخ شفق کی منزل سے معدوم …