Category «مرزاداغ دہلوی»

ترے وعدے کو اے بتِ حیلہ جو (داغ دہلوی)

ترے وعدے کو اے بتِ حیلہ جو ، نہ قرار ہے نہ قیام ہے کبھی شام ہے، کبھی صبح ہے، کبھی صبح ہے، کبھی شام ہے مرا ذکر ان سے جو آگیا کہ جہاں میں ایک ہے باوفا تو کہا کہ میں نہیں جانتا ، مرا دور ہی سے سلام ہے   رہیں کوئی دم …

بت کو بت اور خدا کو جو خدا کہتے ہیں (داغ دہلوی)

بت کو بت اور خدا کو جو خدا کہتے ہیں ہم بھی دیکھیں تو اسے دیکھ کے کیا کہتے ہیں ہم تصور میں بھی جو بات ذرا کہتے ہیں سب میں اڑ جاتی ہے ظالم اسے کیا کہتے ہیں جو بھلے ہیں وہ بروں کو بھی بھلا کہتے ہیں نہ برا سنتے ہیں اچھے نہ …

افسوس میں نے روزِ ازل یہ نہ کہہ دیا (داغ دہلوی)

افسوس میں نے روزِ ازل یہ نہ کہہ دیا دے مجھ کو سب جہان کی نعمت سوائے دل گھبرا کے بزم ناز سے آخر وہ اٹھ گئے سن سن کے ہائے ہائے جگر ہائے ہائے دل کہتے نہ تھے سن کے وہ برا مان جائیں گے اے داغ ان سے اور کہو ماجرائے دل

میرے قابو میں نہ پہروں دلِ ناشاد آیا (داغ دہلوی)

میرے قابو میں نہ پہروں دلِ ناشاد آیا وہ مِرا بھولنے والا جو مجھے یاد آیا   دلِ ویراں سے رقیبوں نے مرادیں پائیں کام کس  کس کے مِرا خرمنِ آباد آیا   دی شبِ وصل مؤذن نے اذاں پچھلی رات ہائے کمبخت کو کس وقت خدا یاد آیا   لیجے سنیے اب افسانئہ فرقت …

زاہد نہ کہہ بری کہ یہ مستانے آدمی ہیں (داغ دہلوی)

زاہد نہ کہہ بری کہ یہ مستانے آدمی ہیں تجھ کو لِپٹ پڑیں گے کہ دیوانے آدمی ہیں   غیروں کی دوستی پر کیوں اعتبار کیجے یہ دشمنی کریں گے بیگانے آدمی ہیں   کیا چور ہیں جو ہم کو درباں تمہارا ٹوکے کہہ دو کہ یہ تو جانے پہچانے آدمی ہیں   ناصح سے …

راہ دیکھیں گے نہ دنیا سے گزرنے والے (داغ دہلوی)

راہ دیکھیں گے نہ دنیا سے گزرنے والے ہم تو جاتے ہیں ٹھہر جائیں ٹھہرنے والے   کثرتِ داغِ محبت سے کھلا ہے گلزار سیر کرتے ہیں مِرے دل میں گزرنے والے   آہ و افغاں سے گئے صبر وتحمل پہلے چلنے والوں سے بھی آگے ہیں ٹھہرنے والے   حشر میں لُطف ہو جب …

تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا (داغ دہلوی)

      تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا   وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں یہ کام کس نے کیا ہے یہ کام کس کا تھا؟   وفا کریں گے نبھاہیں گے بات مانیں گے تمہیں بھی …

پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے (داغ دہلوی)

پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے اجل رہ گئی تو کہاں آتے آتے مجھے یاد کرنے سے یہ مدعا تھا نکل جائے جاں ہچکیاں آتے آتے نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی بہت دیر کی مہرباں آتے آتے نتیجہ نہ نکلا تھکے سب پیامی وہاں جاتے جاتے یہاں آتے آتے چلے آتے …

عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں (داغ دہلوی)

عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں باعثِ ترکِ ملاقات  بتاتے بھی نہیں   کیا کہا پھر تو کہو ہم نہیں سُنتے تیری نہیں سُنتے تو ہم ایسوں کو سناتے بھی نہیں   خُوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں   ہو چکا …

ساز یہ کینہ ساز کیا جانیں (داغ دہلوی)

  ساز یہ کینہ ساز کیا جانیں ناز والے نیاز کیا جانیں   کب کسی در پہ جبہ سائی کی شیخ صاحب نماز کیا جانیں   جو رہِ عشق میں قدم رکھیں وہ نشیب و فراز کیا جانیں   حضرتِ خضر جب شہید نہ ہوں لطفِ عمرِ دراز کیا جانیں   جو گزرتے ہیں داغ …