Category «شاعری»

زندگی تیرے بغیر اب( اختر شمار)

ایک خط کے جواب میں زندگی تیرے بغیر اب ہورہی ہے یوں بسر معتدل موسم کا پنچھی برف زاروں کی ہوا میں اڑ رہا ہو جس طرح اور پھر اس یخ فضا میں اڑتے اڑتے اس کے پر منجمد ہونے کو ہوں لیکن ابھی وہ دھند میں لپٹا سفر باقی بھی ہو!

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں (منیر نیازی)

  ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو اسے آواز دینی ہواسے واپس بلانا ہو ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں …

خوشگوار موسم میں (افتخار عارف)

بارھواں کھلاڑی خوشگوار موسم میں ان گنت تماشائی اپنی اپنی ٹیموں کو داد دینے آتے ہیں اپنے اپنے پیاروں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں میں الگ تھلگ سب سے بارھویں کھلاڑی کو ہوٹ کرتا رہتا ہوں بارھواں کھلاڑی بھی کیا عجب کھلاڑی ہے شور مچتا رہتا ہے داد پڑتی رہتی ہے اور وہ الگ سب سے …

ہم تو یوں خوش تھے کہ اک تار گریباں میں ہے (احمد فراز)

ہم تو یوں خوش تھے کہ اک تار گریباں میں ہے کیا خبر تھی کہ بہار اس کے بھی ارمان میں ہے ایک ضرب اور بھی اے زندگیِ تیشہ بدست سانس لینے کی سکت اب بھی مری جاں میں ہے میں تجھے کھو کے بھی زندہ ہوں یہ دیکھا تو نے کس قدر حوصلہ ہارے …

قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے (احمد فراز)

قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لئے اب یہی ترکِ تعلق کے بہانے مانگے زندگی ہم ترے داغوں سے رہے شرمندہ …

تیری باتیں ہی سنانے آئے (احمد فراز)

تیری باتیں ہی سنانے آئے دوست بھی دل ہی دکھانے آئے پھُول کھِلتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں تیرے آنے کے زمانے آئے ایسی کچھ چپ سی لگی ہے جیسے ہم تجھے حال سنانے آئے اب تو رونے سے بھی دل دُکھتا ہے شاید اب ہوش ٹھکانے آئے سو رہو موت کے پہلو میں فراز …

ترا ننھا سا قاصد جو ترے خط لے کے آتا تھا (اختر شیرانی)

ننھا قاصد ترا ننھا سا قاصد جو ترے خط لے کے آتا تھا نہ تھا معلوم اُسے کس طرز کے پیغام لاتا تھا سمجھ سکتا نہ تھا وہ خط میں کیسے راز پنہاں ہیں حروفِ سادہ میں  کس حشر کے انداز پنہاں ہیں اسے کیا علم ان نیلے لفافوں میں چھپا کیا ہے کسی مہ …

مِرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے (احمد فراز)

محاصرہ مِرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے کہ حلقہ زن ہیں مِرے گرد لشکری اس کے فصیلِ شہر کے ہر برج ہر منارے پر کماں بدست ستادہ ہیں عسکری اُس کے وُہ برقِ لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش وجودِ خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی بچھا دیا گیا ہے بارود …

اجل سے خوف زدہ زیست سے ڈرے ہوئے لوگ (احمد فراز)

اجل سے خوف زدہ زیست سے ڈرے ہوئے لوگ کہ جی رہے ہیں میرے شہر میں مرے ہوئے لوگ یہ عجزِ خلق ہے یا قاتلوں کی دہشت ہے رواں دواں ہیں ہتھیلی پہ سر رکھے ہوئے لوگ نہ کوئی یاد ، نہ آنسو، نہ پھول ہیں نہ چراغ تو کیا دیارِ خموشاں سے بھی پرے …

اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں (احمد فراز)

  اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں   یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں   زندگی تیری عطا تھی سو ترے نام کی ہے ہم نے جیسے بھی بسر کی ترا احساں جاناں   …