غضب کِیا تِرے وعدے پر اعتبار کیا (داغ دہلوی)
غضب کِیا تِرے وعدے پر اعتبار کیا تمام رات قیامت کا اتنظارکیا کسی طرح جو نہ اُس بُت نے اعتبار کیا مِری وفا نے مجھے خُوب شرمسار کیا تجھے تو وعدۃ دیدار ہم سے کرنا تھا یہ کیا کِیا کہ جہاں کو امیدوار کیا یہ دل کو تاب کہاں ہے کہ ہو ماآل اندیش انہوں …