مِرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے (احمد فراز)

محاصرہ مِرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے کہ حلقہ زن ہیں مِرے گرد لشکری اس کے فصیلِ شہر کے ہر برج ہر منارے پر کماں بدست ستادہ ہیں عسکری اُس کے وُہ برقِ لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش وجودِ خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی بچھا دیا گیا ہے بارود …

اجل سے خوف زدہ زیست سے ڈرے ہوئے لوگ (احمد فراز)

اجل سے خوف زدہ زیست سے ڈرے ہوئے لوگ کہ جی رہے ہیں میرے شہر میں مرے ہوئے لوگ یہ عجزِ خلق ہے یا قاتلوں کی دہشت ہے رواں دواں ہیں ہتھیلی پہ سر رکھے ہوئے لوگ نہ کوئی یاد ، نہ آنسو، نہ پھول ہیں نہ چراغ تو کیا دیارِ خموشاں سے بھی پرے …

اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں (احمد فراز)

  اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں   یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں   زندگی تیری عطا تھی سو ترے نام کی ہے ہم نے جیسے بھی بسر کی ترا احساں جاناں   …

کسی کی چاپ نہ تھی ، چند خشک پتے تھے (احمد ندیم قاسمی)

کسی کی چاپ نہ تھی ، چند خشک پتے تھے شجر سے ٹوٹ کے فصلِ گل پہ روئے تھے ابھی ابھی تمہیں سوچا تو کچھ نہ یاد آیا ابھی ابھی تو ہم ایک دوسرے سے بچھڑے تھے تمام عمر وفا کے گناہ  گار رہے یہ اور بات، کہ ہم آدمی تو اچھے تھے تمہارے بعد، …

ریت سے بت نہ بنا اے مِرے اچھے فن کار (احمد ندیم قاسمی)

پتھر ریت سے بت نہ بنا اے مِرے اچھے فن کار ایک لمحے کو ٹھہر میں تجھے پتھر لادوں میں ترے سامنے انبار لگادوں۔۔۔۔۔ لیکن کون سے رنگ کا پتھر ترے کام آئے گا؟ سرخ پتھر؟ جسے دل کہتی ہے بے دل دنیا یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیلا پتھر جس میں صدیوں کے تحیر …

آنکھیں چرا کے ہم سے بہار آئے، یہ نہیں (جاں نثار اختر)

آنکھیں چرا کے ہم سے بہار آئے، یہ نہیں حصے میں اپنے صرف غبار آئے، یہ نہیں کوئے غمِ حیات میں سب عمر کاٹ دی تھوڑا سا وقت واں بھی گزار آئے، یہ نہیں خود عشق قربِ جسم بھی ہے، قربِ جاں کے ساتھ ہم دور ہی سے اُن کو پکار آئے ، یہ نہیں …

رنج و غم مانگے ہے ، اندوہِ بلا مانگے ہے (جاں نثار اختر)

رنج و غم مانگے ہے ، اندوہِ بلا مانگے ہے دل وہ مجرم ہے جو خود اپنی سزا مانگے ہے چپ ہے ہر زخمِ گلو چپ ہے شہیدوں کا لہو دستِ قاتل ہے کہ محنت کا صلہ مانگے ہے تو ہے اِک دولتِ نایاب  مگر کیا کہیے زندگی اور بھی کچھ تیرے سوا مانگے ہے …

زندگی یہ تو نہیں، تم کو سنوارا ہی نہ ہو (جاں نثار اختر)

زندگی یہ تو نہیں، تم کو سنوارا ہی نہ ہو کچھ نہ کچھ ہم نے ترا قرض اتارا ہی نہ ہو کوئے قاتل کی بڑی دھوم ہے چل کر دیکھیں کیا خبر ، کوچئہ دلدار سے پیارا ہی نہ ہو دل کو چھو جاتی ہے یوں رات کی آواز کبھی چونک اٹھتا ہوں کہیں تو …

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں (احمد فراز)

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں سو اُس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے ستارے بامِ فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں …

اشعار مِرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں (جاں نثار اختر)

اشعار مِرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں کچھ شعر فقط ان کو سنانے کے لیے ہیں اب یہ بھی نہیں ٹھیک کہ ہر درد مٹادیں کچھ درد کلیجے سے لگانے کے لیے ہیں آنکھوں میں جو بھر لوگے تو کانٹوں سے چبھیں گے یہ خواب تو پلکوں پہ سجانے کے لیے ہیں دیکھوں ترے …