پھر وہ برسات دھیان میں آئی (ثروت حسین)
پھر وہ برسات دھیان میں آئی تب کہیں جان جان میں آئی پھول پانی میں گر پڑے سارے اچھی جنبش چٹان میں آئی روشنی کا اتا پتا لینے شب تیرہ جہان میں آئی رقص سیارگاں کی منزل بھی سفر خاک دان میں آئی
اردوکےمشہورشعئرا اور ان کاکلام
پھر وہ برسات دھیان میں آئی تب کہیں جان جان میں آئی پھول پانی میں گر پڑے سارے اچھی جنبش چٹان میں آئی روشنی کا اتا پتا لینے شب تیرہ جہان میں آئی رقص سیارگاں کی منزل بھی سفر خاک دان میں آئی
سب نے کئے ہیں باغ میں اُن پر نِثار پُھول اے سرو آ تُجھے میں دِلا دُوں اُدھار پُھول لاتا نہیں کوئ مِری تُربت پہ چار پُھول ناپید ایسے ہو گئے پروردگار پُھول جاتی نہیں شباب میں بھی کم سِنی کی بُو ہاروں میں اُن کے چار ہیں کلیاں تو چار پُھول کب حلق کٹ …
ترےنثار نہ دیکھی کوئی خوشی میں نے کہ اب تو موت کو سمجھا ہے زندگی میں نے یہ دل میں سوچ کے توبہ بھی توڑ دی میں نے نہ جانے کیا کہے ساقی اگر نہ پی میں نے کوئی بلا مرے سر پر ضرور آئے گی کہ تیری زلفِ پریشاں سنوار دی میں نے سحر …
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو اشکِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو پھرتے ہیں مثلِ موجِ ہوا شہر شہر میں آوارگی کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو شامِ الم ڈھلی تو …
نقص نکلیں گے ماہِ کامل میںوہ اگر آگئے مقابل میںفرطِ شوخی سے وہ نظر نہ پڑےآئے بھی اور نہ آئے محفل میںہو جو ہمّت تو سب کچھ آساں ہودقتیں ہیں جو کارِ مشکل میںدیکھ کیفیت گدائے مغاںکشتیء مئے ہے دستِ سائل میںوہ اور آئیں مری عیادت کویوں کہو یہ بھی آگئی دل میںدام کاکل میں …
مِرا ہی رنگ پریدہ ہر اک نظر میں رہاوگرنہ درد کا موسم تو شہر بھر میں رہا کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزلکوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا کچھ اس طرح سے گزری ہے زندگی جیسےتمام عمر کسی دوسرے کے گھر میں رہا وداعِ یار کا منظر فراز یاد نہیںبس …
اب کے سفر ہی اور تھا، اور ہی کچھ سراب تھےدشتِ طلب میں جا بجا، سنگِ گرانِ خواب تھے حشر کے دن کا غلغلہ، شہر کے بام و دَر میں تھانگلے ہوئے سوال تھے، اُگلے ہوئے جواب تھے اب کے برس بہار کی، رُت بھی تھی اِنتظار کیلہجوں میں سیلِ درد تھا، آنکھوں میں اضطراب …
رات دن چین ہم اے رشک قمر رکھتے ہیںشام اودھ کی تو بنارس کی سحر رکھتے ہیں بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیاتاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں ڈھونڈھ لیتا میں اگر اور کسی جا ہوتےکیا کہوں آپ دل غیر میں گھر رکھتے ہیں اشک قابو میں نہیں راز چھپاؤں کیوں …
ہے طرفہ قیامت جو ہم دیکھتے ہیںترے رخ پہ آثارِ غم دیکھتے ہیں غضب ہے نشیب و فرازِ زمانہنہ تم دیکھتے ہو، نہ ہم دیکھتے ہیں تمنا ہے اب ہم کو بے حرمتی کیسبھی کو یہاں محترم دیکھتے ہیں چلو بے کمند و کماں آج چل کرغزالوں کا اندازِ رَم دیکھتے ہیں یہی تو محبت …
یہ اور بات ہے تجھ سے گلا نہیں کرتے جو زخم تو نے دیے ہیں بھرا نہیں کرتے ہزار جال لیے گھومتی پھرے دنیا ترے اسیر کسی کے ہوا نہیں کرتے یہ آئنوں کی طرح دیکھ بھال چاہتے ہیں کہ دل بھی ٹوٹیں تو پھر سے جڑا نہیں کرتے وفا کی آنچ سخن کا تپاک …