Monthly archives: June, 2019

میں جب طفلِ مکتب تھا، ہر بات، ہر فلسفہ جانتا تھا )اختر الایمان)

آگہی   میں جب طفلِ مکتب تھا، ہر بات، ہر فلسفہ جانتا تھا کھڑے ہو کے منبر پہ پہروں سلاطینِ پارین و حاضر حکایاتِ شیریں و تلخ ان کی، ان کے درخشاں جرائم  جو صفحاتِ تاریخ پر کارنامے ہیں، ان کے اوامر نواہی حکیموں کے اقوال، دانا خطیبوں کے خطبے جنہیں مستمندوں نے باقی رکھا …

ہاتھ نہ آئی دنیا بھی اور عشق میں بھی گمنام رہے (شبنم شکیل)

ہاتھ نہ آئی دنیا بھی اور عشق میں بھی گمنام رہے سوچ کے اب شرمندہ ہیں  کیوں دونوں میں ناکام رہے   اب تک اس کے دم سے اپنی خوش فہمی تو قائم ہے اچھا ہے جو بات میں اس کی تھوڑا سا ابہام رہے   ہم نے بھی کچھ نام کیا تھا ہم کو …

سوکھے ہونٹ سلگتی آنکھیں سرسوں جیسا رنگ (شبنم شکیل)

سوکھے ہونٹ سُلگتی آنکھیں سرسوں جیسا رنگ برسوں بعد وہ دیکھ کے مجھ کو رہ جائے گا دنگ   ماضی کا وہ لمحہ مجھ کو آج بھی خون رلائے اکھڑی اکھڑی باتیں اس کی غیرون جیسے ڈھنگ   تارہ بن کے دور افق پر کانپے لرزے ڈولے کچھ دور سے اڑنے والی دیکھو ایک پتنگ   …

ایک خواہش (منیر نیازی)

ایک خواہش   یخ آلود ، ٹھنڈی ہوا   بادلوں سے بھری شام ہو   اور طوفان زدہ بحر کی تُند موجوں کی مانند   آوازیں دیتے ہوئے پیڑ ہوں   شہر کی سونی گلیوں میں اُڑتے ہوئے خشک پتوں   پُراسرار دروازے کھلنے کی مدھم صدا   ریشمی پیرہن سرسرانے کی خوشبوؤں کا شور …

آنکھوں میں اندھیری رین بھی ہے (منیر نیازی)

ایک پہیلی   آنکھوں میں اندھیری رین بھی ہے   میری ہی طرح بے چین بھی ہے   پر اُس کی اپنی شان بھی ہے   ہونٹوں پہ عجب مسکان بھی ہے   اور منہ میں رنگیلا پان بھی ہے   جب دیکھیں تو شرماتی ہے   جب چاہیں تو گھبراتی ہے

دیئے ابھی نہیں جلے (منیر نیازی)

آمدِ شب   دیئے ابھی نہیں جلے   درخت بڑھتی تیرگی میں چھپ چلے   پرند قافلوں میں ڈھل کے اُڑ چلے   ہوا ہزار مرگِ آرزو کا ایک غم لیے   چلی پہاڑوں کی سمت رُخ کئے   کھُلے سمندروں میں کشتیوں کے بادباں کھلے   سوادِ شہر کے کھنڈر   گئے دنوں کی …

صبح کی آج جو رنگت ہے وہ پہلے تو نہ تھی(فیض احمد فیض)

صبح کی آج جو رنگت ہے وہ پہلے تو نہ تھی کیا خبر آج خراماں سرِ گلزار ہے کون   شام گلنار ہوئی جاتی ہے دیکھو تو سہی یہ جو نکلا ہے لئے مشعلِ رخسار،  ہے کون   رات مہکی ہوئی آئی ہے کہیں سے پوچھو آج بکھرائے ہوئے زلفِ طرح دار ہے کون   …

نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش دلِ ریزہ ریزہ گنوادیا (فیض احمد فیض)

نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش دلِ ریزہ ریزہ گنوادیا جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تنِ داغ داغ لٹا دیا   مرے چارہ گر کو نوید ہو صفِ دشمناں کو خبر کرو جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا   کرو کج جبیں پہ سرِ کفن مرے قاتلوں کو گماں …

کوئی عاشق کسی محبوبہ سے (فیض احمد فیض)

کوئی عاشق کسی محبوبہ سے   یاد کی راہ گزر جس پہ اسی صورت سے مدتیں بیت گئیں ہیں تمہیں چلتے چلتے ختم ہو جائے جو دو چار قدم اور چلو موڑ پڑتا ہے جہاں دشتِ فراموشی کا جس سے آگے نہ کوئی میں ہوں نہ کوئی تم ہو سانس تھامے ہے نگاہیں کہ نہ …