Monthly archives: June, 2020

سب وا ہیں دریچے تو ہوا کیوں نہیں آتی (شبنم شکیل)

سب وا ہیں دریچے تو ہوا کیوں نہیں آتی چپ کیوں ہے پرندوں کی صدا کیوں نہیں آتی گل کھلنے کا موسم ہے تو پھر کیوں نہیں کھلتے خاموش ہیں کیوں پیڑ ۔ صبا کیوں نہیں آتی بے خواب کواڑوں پہ ہوا دیتی ہے دستک سوئے ہوئے لوگوں کو جگا کیوں نہیں آتی سنتے ہیں …

روشنی آنے دو ، دیوار کو در ہونے دو (شبنم شکیل)

روشنی آنے دو ، دیوار کو در ہونے دو سحرِ شب ٹوٹنے دو ، نورِ سحر ہونے دو ایک پھر پہ نہ ضائع کرو برسات اپنی صدفِ چشم میں اشکوں کو گہر ہونے دو دل ہو دریا تو تموج اسے راس آتا ہے روز پیدا مرے دریا میں بھنور ہونے دو کبھی پندار نے دی …

کسی شاعر سے کبھی خواب نہ چھینو اس کے (شبنم شکیل)

خواب کسی شاعر سے کبھی خواب نہ چھینو اس کے خواب چھینو گے تو بے موت ہی مر جائے گا اور کچھ ہاتھ تمہارے بھی نہیں آئے گا اس کی فطرت میں ہے بس خواب نگر میں رہنا جس کی پونجی ہو فقط خواب اسے کیا کہنا خواب کی دھن میں وہ متوالا مگر جب …

جو بیتی ہے وہ دہرانے میں کچھ وقت لگے گا (شبنم شکیل)

جو بیتی ہے وہ دہرانے میں کچھ وقت لگے گا اس غم کو اک یاد بنانے میں کچھ وقت لگے گا نیند تو آنے کو تھی پر دل پچھلے قصے لے بیٹھا اب خود کو بے وقت سلانے میں کچھ وقت لگے گا اس کا ساتھ اب تنہائی کو کرتا ہے اور زیادہ پر یہ …

وہ میرے حال پہ رویا بھی مسکرایا بھی (آنس معین)

وہ میرے حال پہ رویا بھی مسکرایا بھی عجیب شخص ہے اپنا بھی ہے پرایا بھی یہ انتظار سحر کا تھا یا تمہارا تھا دیا جلایا بھی میں نے دیا بجھایا بھی میں چاہتا ہوں ٹھہر جائے چشمِ دریا میں لرزتا عکس تمہارا بھی میرا سایا بھی بہت مہین تھا پردہ لرزتی آنکھوں کا مجھے …

یہ اور بات کہ رنگِ بہار کم ہو گا (آنس معین)

یہ اور بات کہ رنگِ بہار کم ہو گا نئی رتوں میں درختوں کا بار کم ہو گا تعلقات میں آئی ہے بس یہ تبدیلی ملیں گے اب بھی مگر انتظار کم ہو گا میں سوچتا رہا کل رات بیٹھ کر تنہا کہ اس ہجوم میں میرا شمار کم ہو گا پلٹ تو آئے گا …

عجب تلاشِ مسلسل کا انجام ہوا (آنس معین)

عجب تلاشِ مسلسل کا انجام ہوا حصول رزق ہوا بھی تو زیرِ دام ہوا تھا انتظار منائیں گے مل کے دیوالی نہ تم ہی لوٹ کے آئے نہ وقتِ شام ہوا ہر ایک شہر کا معیار مختلف دیکھا کہیں پہ سر کہیں پگڑی کا احترام ہوا ذرا سی عمر عداوت کی لمبی فہرستیں عجیب قرض …

جیون کو دکھ، دکھ کو آگ اور آگ کو پانی کہتے (آنس معین)

جیون کو دکھ، دکھ کو آگ اور آگ کو پانی کہتے بچے لیکن سوئے ہوئے تھے، کس سے کہانی کہتے سچ کہنے کا حوصلہ تم نے چھین لیا ہے، ورنہ شہر میں پھیلی ویرانی کو سب ویرانی کہتے وقت گزرتا جاتا اور یہ زخم ہرے رہتے ، تو بڑی حفاظت سے رکھی ہے، تیری نشانی …

سنگ جب آئینہ دکھاتا ہے (امید فاضلی)

سنگ جب آئینہ دکھاتا ہے شیشہ کیا کیا نظر چراتا ہے سلسلہ پیاس کا بتاتا ہے پیاس دریا کہاں بجھاتا ہے ریگزاروں میں جیسے تپتی دھوپ یوں بھی اس کا خیال اتا ہے سن رہا ہوں خرامِ عمر کی چاپ عکس آواز بتا جاتا ہے وہ بھی کیا شخص ہے کہ پاس آ کر فاصلہ …

اپنی فضا سے اپنے زمانوں سے کٹ گیا (امید فاضلی)

اپنی فضا سے اپنے زمانوں سے کٹ گیا پتھر خدا بنا تو چٹانوں سے کٹ گیا پھینکا تھکن نے جال تو کیوں کر کٹے گی رات دن تو بلندیوں میں اڑانوں سے کٹ گیا وہ سر کہ جس میں عشق کا سودا تھا کل تلک اب سوچتا ہوں کیا مرے شانوں سے کٹ گیا پھرتے …